بلوچ رہنما اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعدان کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمدہوگئی ۔
کریمہ بلوچ کو آخری بار اتوار 20 دسمبر 2020 کو تقریباً دوپہر تین بجے دیکھا گیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھیں۔ جبکہ آج انکی لاش ٹورنٹو سے برآمد ہوئی۔
37 سالہ کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی زندگی گذار رہی تھی اوربلوچ طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرپرسن رہ چکے تھے۔ سنہ 2016 میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کے ‘سو بااثر خواتین” کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔
ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کی گمشدگی کے بعد انکا مکمل حلیہ اور تصویر اپنے ویب سائٹ پر جاری کیا تھا اور عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ تلاش میں پولیس کی مدد کریں۔ تاہم آج کریمہ بلوچ کی اہلخانہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ کریمہ بلوچ کی لاش برآمد ہوچکی ہے۔ تاہم ابتک ایسی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں کہ انکے انتقال اور گمشدگی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے۔
کریمہ بلوچ، بلوچستان کے معروف سیاسی کارکنان میں سے ایک تھے۔ انہیں بلوچ خواتین میں سیاسی تحرک پیدا کرنے کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ بی ایس او کی ستر سالہ تاریخ میں تنظیم کے پہلے خاتون سربراہ ہونے کا بھی اعزاز رکھتی تھیں۔ بلوچستان میں جان کو لاحق خطرات کے باعث انہوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کرلی تھی۔ جسکے بعد وہ کینیڈا اور سویٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کے سیشنوں میں بلوچستان کا مسئلہ اٹھاتے رہے تھے۔
کریمہ بلوچ کی اچانک گمشدگی اور موت پر بلوچ سیاسی کارکنان نے گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس قتل کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہے جو بیرون ملک مقیم بلوچ سیاسی پناہ گزینوں کو ایک ایک کرکے ٹارگٹ کر رہی ہے اور انسانی حقوق کے ادارے اس سلسلے میں مکمل خاموش ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں ایک اور بلوچ پناہ گزین صحافی ساجد حسین سویڈن سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ کچھ وقت کے بعد انکی لاش اپسالا سویڈن کے ایک دریا سے برآمد ہوئی تھی۔ انکے عزیز و اقربا نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ رپورٹرز ود آﺅٹ بارڈرز نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ ساجد حسین کے اغوا و قتل کے پیچھے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور ایم آئی کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔