پشتون پاکستان سے دور کیوں ہورہا ہے۔۔۔۔؟

0
128

تحریر رفیق خان پشتون

متحدہ ہندوستان کے وقت پشتون ہندوستان کے اتحاد اور ہندوستان سے آنگریز سامراج کی سامراجی قبضے کے خلاف تھے۔ تب سرحد کے پشتونوں کی رہنمائی باچا خان اور بلوچستان میں موجود پشتونوں کی رہنمائی عبدلصمد خان اچکزائی جیسی قدآوار شخصیات کے ہاتھ میں تھی۔ پشتون قیادت نے ال انڈیا مسلم لیگ کے مقابلے پشتونوں نے ہمیشہ سے آل انڈیا کانگریس کا ساتھ دیا۔ تقسیم سے قبل متحدہ ہنفوسران میں ہونے والے آخری انتخابات میں سرحد میں مسلم لیگ کو بدترین شکست ہوئی اور سرحد میں باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے کانگریسی حکومت قائم کی۔ سرحد سے مسلم لیگ کی بدترین شکست کو متوقع بننے والے پاکستان سے پشتونوں کا انکار تصور کیا گیا۔ سرحد کے پٹھان کبھی بھی محمد علی جناح سے متاثر نہیں ہوئے۔ 1947 میں انگریز کی طرف سے بنوائے گئے نئے ملک پاکستان میں سرحد کو شامل صرف اور صرف ڈیورنڈ لائین کی وجہ سے انگریز نے کیا۔

پاکستان بنتے ہی ایک طرف باچا خان سمیت اینٹی مسلم لیگ قیادت کا جینا دوبھر کیا جانے لگا دوسری طرف آمریکہ کی ایما پر پشتون علاقوں میں مزہبی جنونیت کو فروغ دینے کا آغاز ہوا۔ پشتونوں کو منظم انداز میں دنیاوی تعلیم سے دور رکھنے کے لئے سعودی عرب کی مدد سے سرحد میں وہابی مدرسوں کا جھال بچھایا گیا۔

پشتونوں کی جماعت نشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی۔ باچا خان سے ولی خان تک سب کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ اجمل خٹک جیل سے بچ کے کابل پہنچے اور قابل میں پشتونستان ہاوس قائم کیا گیا۔ نیپ سے لے کے عوامی نشنل پارٹی تک کے منشور کے مطابق پشتون اٹک سے پار کے پشتون علاقوں پر مشتمل پشتونستان /گریٹر افغانیہ بنانا تھا۔ اجمل خٹک نے کابل میں آزاد پشتونستان کا جھنڈا بھی لہرایا۔ پشتونوں کے سب سے بڑے لیڈر باچا خان کو ان کی رحلت کے بعد ان ہی کی وصیت کے مطابق پاکستان کے بجائے افغانستان جلال آباد میں دفن کیا گیا۔ بھٹوکے دور میں بھٹو , فوج اور پنجابی اسٹبلشمنٹ نے مل کے پشتونوں پر ظلم کے پہاڈ توڈے۔ ساتھ ہی ساتھ آمریکہ کی ایما پر سعودی تعاون سے پشتون علاقوں کے نوجوانوں کو مزہب کے نام پر جہاد کی طرف مائل کیا گیا۔
آمریکہ اور سعودیہ کی مدد سے پشتونوں کو جہادی بناکے کابل بھیجنا شروع کیا گیا۔ کابل میں جاری روس آمرکہ تضاد کو اسلام اور کُفر کا نام دے کے پشتونوں نوجوانوں کو جہادی بناکے ان کا استمال شروع ہوا
عوامی نشنل پارٹی کی مقبولت کم کرنےکے لئے سرحد میں جماعت اسلامی اور جماعت علما اسلام جیسی مزہبی جماعتوں کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔

اسی کی دہائی میں امن کے دائی باچا خان کی پُرامن سرزمین کو جہاد کا میدان بنایا گیا۔ آمریکی ڈالر اور سعودی ریال لے کے پشتونوں کو جہادی بناکے کابل میں روس کے خلاف آمریکہ کی مدد کی گئی۔ اس جہاد میں ہزاروں پشتون نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہزاروں عورتیں بیوہ ہوئی۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے۔ روس کے کابل سے جانے کے بعد کابل میں مجاہدین کے مابین جھڑپوں میں بھی پشتون نوجوان ہی ایندھن بن گئے۔ مولانا سمیع الحق کا مدرسہ افغان جہادیوں کا مرکز تھا۔ مولا عمر جیسے سارے لوگ بھی اسی مدرسے کے ہی پیداوار تھے ۔ مولا عمر کے زریعے افغانستان پر قبضے کے وقت بھی سرحد کے پٹھان ہی مولا عمر کے سپاہی بن گئے۔ تحریک طالبان کی مدد سے ہی داعش سرحد سے ہوتے ہوئے کابل میں داخل ہوئے۔ اس دور میں پشتون علاقوں کو پتھر کے دور میں داخل کیا گیا۔

نائن الیون کے بعد آمریکہ سے نیا حکم نامہ آیا اور جنرل مشرف نے پاکستانی سرکار کی مدد سے بنائے گئے مزہبی انتہا پسندوں کو آمریکہ کے حوالے کرنا شروع کیا پشتوں آمریکہ اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے لئےGood boys سے اچانک bad boys بن گئے۔ ایک طرف آمریکہ کے حوالے کئے جانے لگے تو دوسری طرف آمریکن ڈالرز کے لئے سابق جہادیوں کے خلاف اپریشن کا آغاز ہوا۔ پاکستان نے قبائلی علاقے سے سوات تک اپنے ہی بنائے ہوئے طالبان کے خلاف اپریشن کے نام پر انسانی آبادیوں میں اپریشن کے نام پر ہزاروں پشتونوں کو مارا۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں اپریشن کے سبب ان علاقوں سے لاکھوں لوگوں نے ہجرت شروع کی۔

کچھ سال قبل چند پشتون نوجوانوں نے ایک حادثے کے بعد پشتون تحافظ مومنٹ PTM کے نام سے نئی تحریک کا آغاز کیا۔ منظور پشتون نامی ایک غیر معروف نوجوان اچانک سے ہشتونوں کا بڑا رہنما بن گیا۔ اور منظور پشتون نے اپنی قوم کو بتایا کہ پاکستانی فوج نے پہلے آمریکہ کے ڈالرز کے لئے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہتھیار تھمائے اور کام نکل جانے کے بعد اسی پاکستانی فوج نے ہمارا قتل عام کیا۔
اور پی ٹی ایم نے ایک فوج کے خلاف ایک نیا نعرہ دیا

” یہ جو دہشتگردی ہے
اس کے پیچھے وردی ہے”
اگے چل کے یہ نعرہ پاکستان بھر میں مشہور ہوا۔ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کی کال پر قبائلی علاقے ہوں یا کے پی کے کے شہر لاہور یو کوئٹہ یا کراچی لاکھوں لوگ جلسوں میں آئے۔ پشتین کی ٹیم نے مزہبی دہشتگردی اور فوج گردی کے خلاف بھرپور مزاہمت شروع کی۔ 2018 کے انتخابات میں علی وزیر اور محسن داوڈ پی ٹی ایم کی حمایت سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہنچے اور ان دونوں نے اسلام آباد کی اسمبلی میں آکے فوج کے چہرے سے نقاب اُتارا۔

اسی وجہ سے ممبر ہونے کے باوجود علی وزیر بار بار گرفتار ہوئے اور جیلوں میں رہیں۔ محسن داوڈ بھی کافی بار گرفتار ہوئے اور محسن داوڈ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ پشتون پڑھے لکھے لوگ سب کو چھوڈ کے پی ٹی ایم کے حامی بن گئے گلالئی جیسی خواتین ڈٹ کر کھڑی ہوئی۔

پی ٹی ایم کے حامی پاکستان کے ہر شہر میں موجود ہیں اور ان کے حامی بڑی تعداد میں آمریکہ اور کنیڈا میں بھی موجود ہیں۔

عوامی نشنل پارٹی اپنی محرومیوں کی زمہ دار پنجابی قوم کو ٹھہراتی تھی مگر پی ٹی ایم برائے راست پاکستانی ریاست اور اس کی فوج کو پشتونوں کی قاتل قرار دیتی ہے۔ پی ٹی ایم پشتونوں میں بہت مقبول ہورہی ہے اور ان کی جدوجہد بھی اب تک باچا خان کی طرح پُرامن ہے۔

بلوچ پہلے سے پاکستان سے بہت دور ہوچکے تھے۔ اب پی ٹی ایم کی تحریک سے پشتون بھی اسلام آباد سے دور ہورہے ہیں اور اس دوری کے حق میں ان کے پاس واضع دلائل بھی ہیں۔
بظاہر تو پی ٹی ایم کی تحریک پاکستان میں پشتون قوم کی تحفظ کے لئے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب پشتون یہ سمجھ چُکا ہے کہ پاکستان میں ان کے قوم کی بقا ممکن نہیں اس لئے یہ سمجھا جائے کی پشتون بھی بہت جلد بلوچوں کی طرح کھُل کے آزادی کی بات کرینگے۔
ویسےبھی پشتون کبھی بھی پاکستان کے حامی نہیں رہیں تھے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں