فاشزم (فسطائیت) سے انکار میں ہی بقاء ہے, حبیب الرحمان

0
331

فاشزم یعنی فسطائیت لاطینی زبان “فاشیو” سے نکلا ہے جس کے معنی (لکڑیوں کا بنڈل ہے)۔یہ لفظ بیسویں صدی میں ابھراجس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی قومیت پرستی جو آمریت کی طاقت سے مخالف کو مارے یا مارنے کے اقدام کرے۔فسطائی طاقت سب سے پہلے ان خیالات کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے جو خیالات اس کو چیلنج کررہے ہوں، مخالف سوچ اورعمل جو آمریت کی قبضہ گیری اور محکومی پر سوالات اٹھائے اس کو طاقت سے نِیست و نابود کرتی ہے، فسطائیت ہمیشہ شکل بدل بدل کر ان سوچوں اور خیالات کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے جن کو وہ اپنے لیئے خطرہ یا مشکل سمجھتی ہے۔ ایک فاشسٹ نظام کے آلہ کاروں نےجو خود کرنا ہوتا ہے، اس کا الزام دوسرے پہ لگا دیتے ہیں پھر اسی کو بنیاد بنا کر ان تمام قوتوں کو نِیست ونابود کرنے کی کوشش کرتےہیں ، جو قوتیں ،خیالات اور سوچیں ان کے لیئے مشکل کا سبب بن رہی ہوتی ہیں یا بن سکتی ہیں ۔سماج اور ریاست میں فاشزم کو ناپنے کے لیئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ سماج اور ریاست کس طرح پوری معاشی اور سیاسی ترتیب کو کنٹرول کرتے ہیں اس کے لیئے کیا قوانین بناتے ہیں اور کیسے اس پر عمل درآمد کرتےہیں۔

فسطائی نظام اندھی قوم پرستی کو تشکیل دیتا ہے جو جھنڈوں، قومی نغموں نعروں اور مخصوص لباس کا بے تحاشہ استعمال کرتا ہے تاکہ لوگوں کو ایک ہی طرف ہانک کر ایک ہی آواز کے ساتھ جوڑ کر ان کا خون مسلسل گرم رکھا جاسکے۔

فسطائی نظام دیدہ و نادیدہ فرضی دشمن کو تخلیق کرتا ہے تاکہ لوگوں پر مسلسل خوف طاری رکھا جاسکے کہ قومی سلامتی خطرے میں ہے تاکہ ریاست کے تحفظ اور حب الوطنی کے نام پر لوگوں کو ان کے حقوق سے کنارہ کش کیا جاسکے۔فسطائیت اپنی فرض کی ہوئی حب الوطنی کو اپنے مخصوص معنی پہنا کر اس شدت سے اس کا پرچار کرتی ہے کہ معاشرے کی ہر پرت اس سے متاثر ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ فسطائیت کے ہاتھوں ایذا رسانی، سزاؤں ،قتل اور قید کرکے ماردینے کو درست تسلیم کرکے اس کو معمول کا عمل سمجھ کر نہ صرف نظرانداز کردیں بلکہ اس کو ایک جائز عمل تصور کرکے اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔

فاشزم ایک مشترکہ دشمن یعنی اختلاف کرنے والے کمزور کو ہدف بناتا ہے تاکہ لوگ قومی دیوانگی سے سرشار ہوکر مسلسل مشکوک اور الجھے رہیں اور یہ مشترکہ دشمن کوئی بھی مذہبی علاقائی اقلیت ، لبرل ، کمیونسٹ یا متبادل سماجی و معاشی بیانیہ ( جو عموماً غیر ملکی سازش ہی ہوتی ہے) سمیت کوئی بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

فسطائیت میں فوجی رویے اور فوجی اداروں کی کارکردگی اور کردار کو مخصوص انداز میں ابھارا جاتا ہے تاکہ عوامی وسائل ان کے لیئے وقف کیے جائیں اور فوج فسطائیت کی شان و شوکت اور ہیبت بنی رہے جبکہ عوام اپنی دوسری یا تیسری مفلوالحالی سے آگے نہ بڑھ سکیں اور نہ ہی کوئی سوال اٹھا سکیں۔

فسطائیت مردانہ برتری کے زعم کو بڑھاوا دیتی ہے ریاست کو نسلی ،مذہبی اور منفی دائروں میں تقسیم کردیتی ہے تاکہ اس کی مردانگی کو معاشرے کومرعوب کرکے منوالیا جائے مزید یہ کہ ذرائع ابلاغ یعنی اخبارات ،ریڈیو، ٹیلی وژن وغیرہ کو اپنے کاسہ لیسوں اور دلالوں کے ذریعے کنٹرول کرکے اختلافی خیالات رکھنے والے ذہنوں کو مسلسل خوفزدہ رکھ کر ان کو خوف کی اذیت میں مبتلا رکھتی ہے تا کہ وہ خیالات نہ ہی پنپ سکیں اور نہ ہی عوام میں مقبول ہوکر ایک عوامی رجحان بن سکیں۔

فسطائیت پر مبنی ریاست مذہبی اصطلاحات، علامات اور تبلیغی عمل سے عوام کو خوفزدہ رکھنے کے لیئے ہتھیار کے طور پر اس کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔اس ریاست میں تخلیقی تجربات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ایسی کسی تخلیقی جرت کرنے والوں کو براہ راست یا چھپے انداز میں خاموش ہوجانے یا رہنے کے بھگتان بھگتنے ہوتے ہیں غداری اور مذہب دشمنی کے بہتانوں کے سیلابوں میں ڈوب جانا ہوتا ہے جس کا لازمی طور پر نتیجہ موت، جلاوطنی یا گمشدگی ہوتا ہے۔

فسطائی ریاست صرف طاقت کی زبان بولتی ہے، چونکہ اس کے بغیر اس کا برقرار رہنا مشکل ہوتا ہے ، اٹھا لینا، ماردینا یا گمشدہ کردینا اس ریاست کے اولین فرائض میں ہوتا ہے بلکہ اپنی طاقت اور زعم کو برقرار رکھنے کے لیئے یہ ریاست معصوم بچوں کو بھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتی ۔درد سے چلانے والے کے زخموں پر اپنی تراشیدہ حب الوطنی یا مذہبی پاکیزگی کا نمک چھڑک کر اپنی طاقت کے جو ہر دکھاتی ہے اور ساتھ ہی اپنی ہی بندوق سے گرائی گئی لاش پر اسی بندوق کے ساتھ اس کو سلامی بھی پیش کرتی ہے۔ اس کے گناہوں کی معافی اور جنت میں داخلے کی بشارت اور ورثاء کے ساتھ افسوس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ عورت کو بے توقیر کرکے مذہب میں اسی کی برابری کی لچھے در تقریر میں بھی ہوتی ہے ، معصوم بچوں کے سامنے ان کی والدین کو قتل کرکے یتیمی کے سر پر شفقت کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔اس جبری کیفیت میں چیزیں بظاہر بالکل نارمل لگتی ہیں، یہاں تک کہ لوگ اپنی ذاتی آزاد حیثیت کو بھی ریاست کی مہربانی سمجھ کر اپنے سارے حقوق سے دستبردار ہوکر دُکھ، اذیت، تکلیف اور محرومی میں زندہ رہنا مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔

فسطائی ریاست میں روزگار اور کاروبار کے لیئےذلت آمیز وفاداری اولین شرط ہوتی ہے۔ اہلیت اور صلاحیت لغو اور بے معنی ہوتی ہے، مخصوص منظور نظر گروہ اور ٹولے اختیارات کا استعمال کرتے ہیں جو عمومی طور پر مخالف بیانیئے یا خیالات کو کچلنے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں، جس میں ان گروہوں کی اپنی خواہش اور مفاد پہلی ترجیح ہوتا ہے۔

فسطائی ریاست میں انتخا بات باہم آپس میں ہی ہوتے ہیں ایک طرح کے نظریات ، مفادات اور سوچیں رکھنے والے گروہ آپسی مقابلہ کرتے ہیں بظاہر ایک دوسرے کے کپڑے اتارتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں دونوں ننگے ہوتے ہیں، لیکن عوام کوچرب زبانی سے کبھی ایک گروہ اور کبھی دوسرا گروہ اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے جس میں مخالف نظریات کی نہ تو گنجائش ہوتی ہے ، نہ ہی اجازت ۔اگر کوئی بولنے کی کوشش کرے یا سوال کرنے کی جُرت کر بیٹھے تو کردار کشی غنڈہ گردی تشدد اور انتقام کے حربے اس کا منہ بند رکھنے کے لیئے بے تحاشہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

اگر کسی ریاست میں مذکورہ اعشاریےموجود ہوں تو سمجھ لیجئے کہ یہ فاشسٹ یعنی فسطائی ریاست ہے ان ہی معروضات کی روشنی میں پاکستان جیسی ریاستوں کو دیکھا جائے تو یہ فاشزم کی ایک مکمل اور بھیانک تصویر نظر آتی ہے جو اپنے عوام اور پڑوسی کا خون پی کر پلی بڑھی ہے۔ آج خاص کر پاکستان کی اس ریاست میں جب سیاست ہر چیز کو بھسم کر رہی ہے کے لیئے نئے نئے محاورے اور قول گھڑے جارہے ہیں، ہماری طاقت نچلی سطح تک کچلی جارہی ہے۔خوبصورت چہروں اور سوچوں کو مسخ کیا جارہا ہے۔ انسانی آزادی پر یقین رکھنے والے مجرم قرار دیئے جارہے ہیں، قوموں کی آزادی اور غربت میں لتھڑے بے بس عوام کی بے توقیری پر سوال اٹھانے والے سازش اور غداری کے مرتکب قرار دیئے جارہے ہیں، چار سو بندوق برادروں کے لشکر ہیں جن کی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے صرف بے گنا ہی کا خون بہتا ہے، جلی ہوئی انسانی لاشوں کی نمائش ہوتی ہے، ایک شہر سے اٹھائے جانے زندہ انسان کی مسخ شدہ لاش کسی دیہات یا پہاڑ سے ملی جاتی ہے ، قاتل مچانوں پر محوِاستراحت ہیں جن کو نامعلوم قرار دیکر محفوظ کرلیا جاتا ہے۔اسی ریاست کا تربیت یافتہ کوئی قاتل جب اپنے قد سے بڑی بندوق کندھے پر اٹھائے منہ پر کالی پگڑی باندھے جب سرینگر کی بستی میں اترتا ہے تو ایک گھناؤنی اور بھدی ماڈلنگ کرتا ہے۔ جب کے وادی کے عوام کے لیئے زندگی سے محرومی کا سرٹیفیکیٹ بن جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست اس کو جنت میں بھیج کر پیچھے رہ جانے والوں کو بھیک مانگنے کے لیئے سڑکوں پہ چھوڑ دیتی ہے۔ یتیمی کا تاج سجائے یہ بچے در در کی تذلیل اپنے اندر سموئے مار مارے پھرتے ہیں جبکہ ممتا اولاد کی بھوک اور محرومی نہ سہہ سکنے کی بے بسی میں جسم بیچنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ماڈلنگ کرتے یہ مذہبی حوالوں اور تاویلوں سے خود کو معتبر سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار مزید خون خرابے و قتل عام کے منصوبے گھڑتے ہیں۔

آج ہمیں شکست دی جارہی ہے خود کو شکست کا شکار ہوتے ہوئے شایدہم نے تسلیم کرلیا ہے کہ دیوار پر لگی ٹک ٹک کرنے والی گھڑیوں کی ٹک ٹک سے وقت آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس لیے ہمیں اب پتا نہیں چلتا کہ کونسا وقت ہمارے بغل میں آکے بیٹھ گیا ہے ہم بے پرواہ ہوگئے ہیں ، ہمارا احساس ختم ہوگیا ہے ، وہ سوئی چبھاتے جارہے ہیں، اور ہم اس درد کو برداشت کرتے جارہے ہیں، ہم آندھیوں کے طر فدار بن گئے ہیں جیسے ہی طوفان کی خبر آتی ہے اور ہم بارش میں ڈوبنے لگتے ہیں تو موسم کی خبریں دیکھنے لگ جاتے ہیں، موسم کا حال بتانے والی مدھر آوازیں ہمیں آندھیوں میں طوفانوں کی ہلاکت خیزی سے لا تعلق کرتی جاتی ہے، اور ہم آندھی و طوفان کے گذر جانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں، یا پھر اُسی طرف ہوجاتے ہیں جس طرف سے آندھی آرہی ہوتی ہے، یہ سب اس لیے ہوتا ہے کے چاروں طرف خوف اور ڈر ڈیرے بسائے ہوئے ہیں، اور ہم اس ڈر سے بھی ڈر جاتے ہیں۔

مرنا صرف قبرستان میں دفن ہوجانا یا جلادینا ہی نہیں ہے ، مرنا تو وہ بھی ہے جو آپکو بولنے لکھنے کہنے اور سننے سے ڈراتا ہے ، فسطائیت کے اس بھیانک حملے کے آگے کھڑے ہوجانا ہی زندہ ہونے کی علامت ہے، اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو معصوموں کے بے گناہ لہو کے تالاب میں یہ ریاست ناچتی رہے گی، اس ناچ کو آگے بڑھ کر روک لینا ہی عظمت انسان کی وہ بلندی ہے جو انسان کو آزاد اور باوقار کرتی ہے، قبضہ گیروں کی منافقت، حماقت ،سفاکی اپنوں کی خوف میں ڈوبی فرمانبرداری سے انکار ہی واحد راستہ ہے، کیونکہ بندوق کے بجائے کپڑے سینے کی سوئی استعمال کرنا لغو بات ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں