پاکستان: لاپتہ بلوچ افراد لواحقین دھرنا جاری،کراچی میں مظاہرہ،کوئٹہ میں کل مظاہرہ ہو گا

0
367

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آبادمیں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا ڈی چوک پر دھرنا ساتویں روز بھی جاری

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین ایک ہفتے سے احتجاج کررہے ہیں۔ گذشتہ رات لواحقین نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر گزاری جبکہ آج دوسرے روز احتجاجی دھرنا جاری ہے۔لاپتہ افراد کے لواحقین نے سردی میں آگ جلاکر گذشتہ رات گزاری، اس موقع رات گئے پولیس اور دیگر اداروں کی بھاری نفری بھی ڈی چوک پر پہنچ گئی تھی۔مظاہرین میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جن میں بلوچ لاپتہ افراد کے عمر رسیدہ مائیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ رات گئے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مظاہرین کو حراساں و خوف زدی کرنے کی بھی کوشش کی۔

گذشتہ روز لواحقین نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ڈی چوک تک احتجاجی ریلی نکالی اور دھرنا دیا۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی تاہم وہ رکاوٹیں عبور کر کے ڈی چوک پہنچے اور دھرنا دیا، جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین اور مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مظاہرین سے خطاب کیا۔

آج دوسرے روز ڈی چوک پر دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نیازی ان سے ملاقات کرکے انہیں ان کے پیاروں کے بازیابی کے حوالے سے یقین دہانی کرائے تاہم وزیر اعظم عمران خان سمیت کسی حکومتی رکن نے لواحقین سے تاحال ملاقات نہیں کی ہے۔

احتجاجی مظاہرے کی رہنمائی کرنے والی سمی دین بلوچ نے اپنے ایک پیغام میں بلوچستان اور دیگر علاقوں کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیلئے اپنے شہروں میں مظاہروں کا انعقاد کریں۔

دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے اسلام آباد میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے کراچی میں مظاہرہ کیا۔

کراچی میں پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف اور اسلام آباد میں احتجاج پر بیٹھے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے طور پر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

کمیپ میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کے علاوہ لاپتہ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی اہلیہ زرینہ بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب بلوچ اور انسانی حقوق کے لاپتہ کے کارکن راشد حسین کے لواحقین جبکہ بلوچ متحدہ محاذ کے یوسف مستی خان، خرم علی، وہاب بلوچ سمیت کراچی سے تعلق رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔
علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ میں شریک مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ سات روز سے سراپا احتجاج بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی رویہ قابل مذمت اور جمہوریت کے منافی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی لاچار ماؤں کے سر پر دست شفقت رکھنے کے بجائے ان بوڑھی والدین پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرت سے ملک محفوظ نہیں تباہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سالوں سے سراپا احتجاج لواحقین کو اتنا بتایا جائے کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا ان کو مار دیا گیا ہے۔ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھائے مظاہرین نے کہا کہ بلوچستان پر اگر ریاست کی یہی پالیسی رہی تو یہ ریاست کے لیے باعث شرم ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کیلئے ان کے لواحقین یا ان سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کا مطالبہ سادہ ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکیوں یا دن کی روشنی میں فورسز نے اٹھا کر سالوں سے لاپتہ کیے ہیں اگر وہ مجرم ہیں تو ان کو اپنے بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے۔
اظہار یکجہتی کے طور پر قائم علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ اور مظاہرے میں شریک لاپتہ افراد کے لواحقین نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے گذشتہ وعدوں کو پورا کرے۔

جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لیے جمعرات کو کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی جائے گی،۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئٹہ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں احتجاجی ریلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پیاروں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور کراچی کے بعد اب احتجاجی کیمپ کو اسلام آباد منعقد کیا ہے جہاں انتظامیہ کی جانب سے ایک متعصبانہ رویہ اپنایا گیا اسی ضمن میں لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی منعقد کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں منعقد احتجاجی کیمپ کو ساتھ روز مکمل ہونے پر گذشتہ روز ریلی کی شکل میں ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا اور راستے میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو زدوکوب اور ہراساں کیا گیا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین جہاں ایک جانب اپنے پیاروں کے گمشدگی کے غم میں اسلام آباد کے سڑکوں پر سرد راتیں گزار رہے ہیں تو دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے مسلسل انہیں ہراساں کرنا نہایت ہی تشویشناک ہے،انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے جمہوری طریقہ کار اپناتے ہوئے پرامن احتجاجی ریلی نکالی اور ڈی چوک پر دھرنا دیا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو زدوکوب کرنا کسی بھی صورت ناقابل قبول ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار ہمدردی اور انتظامیہ کے متعصبانہ رویے کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کل کوئٹہ میں احتجاجی ریلی منعقد کریں گے۔ ہم طلباء تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور تمام انسان دوست افراد کو ریلی میں شرکت کی درخواست کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں