ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے جوہری پروگرام سے متعلق متنازع بیان کے باوجود ہمارے موقف میںکوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ بات چیت کے نتائج سے قبل ایران پر عائد پابندیاں نہیں اٹھائیں گے اور نہ ایرانی سپریم لیڈر کے یورینیم افزودگی کی مقدار بڑھانے سے متعلق بیان سے ہماری پالیسی تبدیل ہوگی۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ ہم جوہری معاہدے پر اضافی اقدامات نہیں کریں گے اور دستخط کنندگان کے گروپ میں طے شدہ مذاکرات کا انتظار کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے بیان میں سفارتی مشاورت میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہم ایرانیوں کی طرف سے دعوت نامے کا جواب دینے کا انتظار کریں گے۔
ساکی نے مزید کہا کہ ایران کے بارے میں ہماری پالیسی داخلی اتفاق رائے کا موضوع ہونا چاہیئے۔ ہم اپنے اگلے اقدامات پر کانگریس سے مشاورت کریں گے۔
ساکی کے بقول سفارت کاری ایران کو جوہری ہتھیار کے حصول سے روکنے کا راستہ ہے لیکن اس فریم ورک سے باہر اقدامات کا آپشن بھی موجود ہے۔
جمعہ کے روز وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں یورپ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے سے قبل ایران پر عاید پابندیاں ختم کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے مشی گن کے لیے سفر کے دوران ہوائی جہاز میںموجود صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جین ساکی نے کہا کہ “سفارتی مذاکرات” سے قبل ایران کے حوالے سے مزید اضافی اقدامات کرنے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں اور نہ ہی ایران پر عاید کی گئی پابندیوں میں نرمی کی جا رہی ہے۔
مزید برآں امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطی کے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایرانی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
جمعہ کے روز بائیڈن نے منعقدہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں ورچوئل خطاب کے دوران زور دیا کہ امریکا کو ایران کی تخریبی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ تہران کے جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ میں مشرق وسطی میں ایران کی تخریبی سرگرمیوں سے نمٹنا ہے۔ جب ہم آگے بڑھیں گے تو ہم اپنے یورپی شراکت داروں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے 5 + 1 میکانزم کو دوبارہ فعال کرنے کے خواہاں ہیں۔
امریکی صدر نے اتحادی ممالک سے چینی سیاسی اور معاشی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چین سے طویل مدتی اسٹریٹجک مقابلے کے لیے مل کر تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ترقی کے فوائد کو وسیع پیمانے پر اور یکساں طور پر مشترکہ بنایا جائے۔