پاکستان میں رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے 27 تک فیصد کم ہوگئی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 21 میں جولائی سے جنوری کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے ایک ارب 57 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے مقابلے ایک کروڑ 14 لاکھ 50 ہزار ڈالر ہوگئی۔
اس کے علاوہ جنوری میں بہاو گزشتہ مالی سال کے اسی ماہ کے 21 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مقابلے 19 کروڑ 27 لاکھ ڈالر دیکھا گیا جو 12 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم 7 ماہ میں کمی بنیادی طور پر چین سے خالص ایف ڈی آئی میں کمی اور ناروے کے لیے خاص اخراج میں اضافہ کی وجہ سے تھی۔
ممالک کے حساب سے اگر تفصیلات دیکھیں تو چین سے ایف ڈی آئی کا خالص آمد گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے 50 کروڑ 26 لاکھ ڈالر کے مقابلے 40 کروڑ 28 لاکھ ڈالر تھی۔
تاہم اب تک دیگر ممالک سے آنے والی آمدنی کی فہرست میں چین سے آئی خالص غیرملکی سرمایہ کاری سب سے زیادہ تھی، 7 ماہ کے دوران چین سے 70 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی آمد ہوئی لیکن اسی عرصے میں 30 کروڑ 44 لاکھ ڈالر کا اخراج ہوا جس سے خالص ایف ڈی آئی 40 کروڑ 28 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔
مزید یہ کہ دیگر ممالک جہاں سے ایف ڈی آئیز 10 کروڑ سے زائد موصول ہوئیں اس میں نیدرلینڈ اور ہانگ کانگ بھی شامل تھا، چونکہ ان دونوں ممالک نے مالی سال 21 کے 7 ماہ میں بالترتیب 12 کروڑ 20 لاکھ ڈالر اور 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
رواں مالی سال کے 7 ماہ کے دوران برطانیہ سے (8 کروڑ 38 لاکھ ڈالر)، امریکا سے (7 کروڑ 35 لاکھ ڈالر) اور مالٹا سے (60 کروڑ 60 لاکھ ڈالر) کی ایف ڈی آئی کی آمد بھی نمایاں رہی۔
تاہم ناروے سے آمدی میں ایک بڑی تبدیلی نے رواں سال ایف ڈی آئی کی مجموعی آمد کو متاثر کیا، ایس بی پی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کے 7 مال کے دوران ناروے سے آمدنی 28 کروڑ 85 لاکھ ڈالر تھی جبکہ رواں مالی سال کے 7 ماہ میں اسکینڈینیوین ملک سے کسی قسم کی آمدنی کے بجائے 2 کرورڑ 58 لاکھ ڈالر کا خالص اخراج ہوا۔
اگر شعبہ جات کے حساب سے دیکھیں تو توانائی کے شعبے میں سب زئادہ توانائی کے شعبے پر اس کا اثر دیکھنے میں آیا اور گزشتہ مالی سال کے 37 لاکھ 30 کروڑ ڈالر کے مقابلے 47 کروڑ 58 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری دیکھی گئی جو 27.6 فیصد کا اضافہ تھا۔
توانائی کے شعبے میں ہی اگر دیکھیں تو سب سے زیادہ کوئلے سے توانائی میں سرمایہ کاری دیکھی گئی اور گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے مقابلے آمدنی 27 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی، اس کے علاوہ ہائڈل پاور 11 کروڑ 10 لاکھ ڈالر اور تھرمل 9 کروڑ 39 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرسکے۔
مالیاتی کاروبار (بینکوں) نے بھی گزشتہ مالی سال کے مقابلے کچھ حد تک زیادہ ایف ڈی آئی کو اپنی طرف راغب کیا اور اس نے گزشتہ مالی سال کے 17 کروڑ 89 لاکھ ڈالر کے مقابلے 18 کروڑ 13 لاکھ ڈالر وصول کیے۔
تاہم تیل اور گیس کی تلاش کے شعبے میں آمدنی گزشتہ مالی سال کے 18 کروڑ 65 لاکھ ڈالر کے مقابلے کم ہوکر 13 کروڑ 67 لاکھ ڈالر رہی، یہ شعبہ سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش رہا ہے لیکن اس میں سست ترقی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو کم کرنے کی عکاسی کرتی ہے۔
ادھر جہاں ملک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات سے اضافی سپورٹ حاصل کر رہا ہے تاہم غیرملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کو کسی خاص سطح تک بہتر بنانا اب بھی کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔
رواں مالی سال کے 7 ماہ کے دوران ترسیلات زر 24 فیصد بڑھیں اور ملک نے 16 ارب 50 کروڑ ڈالر کی ترسیلات وصول کیں۔
دوسری جانب مالی شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ تمام کوششوں اور مراعات کے باوجود برآمدات آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہیں جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں ملک کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔
پیرس سے تعلق رکھنے والی ٹاسک فورس ایف اے ٹی ایف کی جانب سے رواں ہفتے کے آخر میں پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے سے متعلق فیصلہ متوقع ہے۔
علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے جنوری 21 کے دوران پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے 2 کروڑ 15 لاکھ ڈالر کی خالص آمدنی کے مقابلے 23 کروڑ 69 لاکھ ڈالر کا خالص اخراج دیکھا گیا۔
اس کے علاوہ مجموعی غیرملکی نجی سرمایہ کاری (پورٹ فولیو سرمایہ کاری کو ہٹا کر) 43.2 فیصد تک کم ہوئی اور یہ 90 کروڑ 84 لاکھ ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں ایک ارب 59 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھی۔