دس سالہ بلوچ بچے کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے پرپاکستانی فوج کیخلاف عوام سراپا احتجاج،انصاف کا مطالبہ

0
460

نیوز انٹر ونشن کی ویڈیو رپورٹ

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں 10سالہ بچے کی جنسی زیادتی کے واقعہ کے بعد ہوشاپ،کوئٹہ،تربت اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جہاں لوگ درندگی کے اس واقعہ پر انصاف اورواقعہ میں ملوث اہلکاروں کو سزادینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یہ واقعہ گذشتہ دنوں بروزبدھ21اپریل کوبلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں پیش آیا۔

مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ پیرا ملٹری فورس فرنٹیئر کور(ایف سی) کے اہلکاروں نے ہوشاپ گریڈ بازار کے رہائشی 10سالہ مراد امیر کو اس وقت جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایف سی ناکہ کے قریب جنگل میں شہد جمع کرنے گیا تھا۔مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اہلکار نے اس کے دوسرے بھائی کو تشدد کا نشانہ بناکربھگا دیا تھا اور کم سن بچے کو تشدد کے بعد جبری طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد کمسن بچے کی حالت غیر ہوگئی جسے بے ہوشی کی حالت میں پھینک دیاگیا۔جہاں بعد ازاں مقامی لوگوں نے انہیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا۔اس واقع کے بعدعوام سراپا احتجاج بن گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں علاقہ مکینوں نے فورسز کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے ہوشاپ میں سی پیک روٹ کو بلاک کر دیا۔

اورمظاہرین نے ایم8 شاہراہ کو دو مقامات زیروپوائنٹ اور پْل کے قریب ٹائر جلا کر ہرقسم کی ٹریفک کے لئے بند کردیاتھا۔

جبکہ جمعے کے روز ہوشاپ میں کمسن بچے کے ساتھ زیادتی کے خلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اورکیچ کے مرکزی شہر تربت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ اور ریلی نکالی گئی۔ جس میں بڑی تعداد میں طلباء اور دیگر افراد نے شرکت کی۔

تربت میں ریلی پولیس تھانہ سے شروع ہوکر شہید فدا چوک پر اختتام پزیر ہوا ہے، ریلی میں متاثرہ بچے کی ماں سمیت خواتین و بچوں سمیت لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ریلی کے شرکاء نے نعرے بازی کی اور انہوں نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں لکھا تھا کہ پاکستانی وہی کہانی دہرا رہا ہے جو پاکستان نے 1971 میں بنگلہ دیش میں دہرائی تھی۔

مظاہرین سے متاثرہ بچے کی والدہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی سزا دینے سے بہتر ہے کہ پاکستانی فوج ہمیں گولی مار کر قتل کرے، بموں سے اڑا دے لیکن ہم اپنی عزت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یہ صرف میرے ساتھ نہیں کیا بلکہ یہ بد سلوکی پوری بلوچ قوم کے ساتھ کی گئی ہے۔دوسری جانب زیادتی کا نشانہ بننے والے امیر مراد کی بھائی نے میڈیکل رپورٹ مسترد کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

کمسن بچے کی میڈیکل رپورٹ تربت کے ٹیچنگ اسپتال کے ڈاکٹروں نے جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچے سے زیادتی نہیں کی گئی۔جبکہ متاثرہ بچے کے بڑے بھائی نے واقعے میں ملوث ایف سی اہلکاروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جو میڈیکل رپورٹ پیش کیا گیا ہے وہ حقائق کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ ہمارا ایف آئی آر تک درج نہیں کررہا ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج کا متاثرہ بچے کے لواحقین پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ واقعے کی رپورٹ درج نہ کریں اور معاملہ رفع دفع کریں۔

ڈاکٹروں کی جاری کردہ میڈیکل رپورٹ کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے بھی تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب کچھ طاقت اور بندوق کے زور پر کیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر کاکہناتھا کہ بلوچستان میں اس نوعیت کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں تاہم متاثرین کیجانب سے خوف اور بدنامی کے باعث ان پر بات نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے کہ فرنٹیئر کور اہلکار کمسن بچوں کو اغواء کرکے عقوبت خانوں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں جن کے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔

ان نے کہا کہ ہم دنیا کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بلوچستان میں جرائم پر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ اور مراد امیر کو انصاف دلایا جائے۔ مراد امیر کے میڈیکل رپورٹ پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس ملک میں راتوں رات بیلٹ باکس بدل دیئے جاتے ہیں، نام نہاد ریفرنڈمز میں ڈکٹیٹڑ لاکھوں ووٹ حاصل کرتے ہیں ان کیلئے میڈیکل رپورٹ تبدیل کروانا مشکل نہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ نے بھی ہوشاپ میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں کمسن بچے مراد امیر کے ساتھ جنسی زیادتی کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج انسان نہیں درندوں کا ایک ہجوم ہے۔ یہ فوج گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی سمیت انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

بی این ایم کے بیان میں کہا گیاہے کہ اس واقعہ میں متاثرہ خاندان کو پیسہ اور دھمکیوں کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے مراد امیر کے بڑے بھائی کو پاکستانی فوج نے تحویل میں لیکر ایف آئی آر واپس لینے اور معاملہ کو ختم کرنے کی دھمکی دی ہے لیکن ہم جتنی خاموش رہیں گے یہ درندہ فوج اپنی درندگیوں میں مزیداضافہ کرتا رہے گا اس واقعہ پر بلوچ کو ایک قوم کی حیثیت سے یکمشت ہوکر آواز اٹھانا اور پاکستان کی مکروہ شکل کو سامنے لانا چاہیئے۔

بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے کہا کہ پاکستان خود کو اسلامی ملک گردانتی اور ماہ رمضان جیسے مبارک مہینے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا اور اس کا اداروں کی طرف سے دفاع کرنے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایسے واقعات منظم منصوبے کے تحت کیئے جارہے ہیں اور جس طرح بنگلادیش میں خواتین اور بچوں کو آجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکل وہی سب کچھ بلوچستان میں دہرایا جارہا ہے۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں ہوشاب واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اِس طرح کا واقعہ نوآبادیاتی نظام کی بدترین شکل ہے۔جہاں ریاست طاقت کے بل بوتے پر اپنی قبضہ گیر پالیسیوں کو دوام بخش رہی ہے وہیں اِس طرح کے واقعات کا رونما ہونا انھی قبضہ گیر پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں