پشتون قومی تحریک اور پاکستانی فوج کی چالاکیاں – تحریر۔ ملک اسلم خان

0
321

پشتون قوم ایک طویل خاموشی و ریاستی مذہبی جبر کے بعد اب اپنی قومی شناخت کے لیے آواز بلند کر رہی ہے،ظاہر ہے یہ سب آسان نہیں اس لیے کہ اب تک پشتون کو مذہب کے نام پر بھلی کا بکرا بنایا گیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں 2018 میں پشتون نوجوان نقیب اللہ مسحود کو پاکستانی پولیس نے جعلی مقابلے کا نشانہ بنایا تو پشتون تحفظ موؤمنٹ پہلی بار عوامی اور ملکی سطح پر منظر عام پر آئی اور پشتون قوم کو ریاستی جبر و مظالم کے خلاف ایک پلیٹ فارم ملی،جس نے پشتون قوم میں ایک نئی روح پھونک دی، انکے مطالبات میں سر فہرست تھے کہ ریاستی فوج اور طالبان کی جانب سے بچھائے جانے والے بارودی سرنگوں کا فورا صفایا کیا جائے،،اچھے اور بُرے طالبان کی دوغلی پالیسی کو بند کیا جائے اور اس پالیسی کو ختم کر کے پشتون علاقوں سے فوج اور طالبان کا انخلا اور غیر ضروری چیک پوسٹ ختم کیے جائیں،۔

آج پشتون قوم پرست پاکستان سے وہی درجہ چاہتے ہیں جو ایک غالب نسلی گرؤہ پنجابی کو حاصل ہے،مگر حسب معمول یہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کسی صورت منظور نہیں ہے۔

کمیٹیوں،مذاکرات کے نام پر پشتون قوم کو وقتی طور پر خاموش کرانے کی کوشش تاتحریر جاری ہیں،مگر اب جدید ٹیکنالوجی یا سوشل میڈیا کے دور میں عوام کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں رہا۔

اس وقت پشتون تحفظ موؤمنٹ

ptm

کے دو رہنما علی وزیر اور محسن دراوڈ پاکستانی کی سب سے بڑی آئین ساز اسمبلی یعنی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں جنکو عوام نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا، دونوں ممبران نے اپنی قومی شناخت،جاری فوجی مظالم کے خلاف پہلی دفعہ اسمبلی میں آواز اُٹھایا مگر اسمبلی میں ان سے بولنے کا حق بھی چھین لیا گیا،اسی جرم کی پاداش میں علی وزیر کو گرفتار کیا گیا، آج ممبر قومی اسمبلی علی وزیر پاکستانی خفیہ اداروں کے خلاف بولنے پر جھوٹے مقدمات میں جیل میں ہے،۔

محسن داوڈ جو آئین ساز اسمبلی کے ممبر ہیں کو بھی کئی بار گرفتار کیا گیا،اسی طرح پی ٹی ایم کے بانی اور قائد منظور پشتین پر درجنوں مقدمات کے ساتھ کئی بار گرفتار کرنے کے ساتھ مارنے کی کوشش کی گئی،مگر پشتونوں کے حوصلے کم نہیں ہوئے۔

پشتون اپنے آفاقی اور انسانی حقوق کے لیے آج بھی جدوجہد کر رہے ہیں،مگرپاکستان کی شیطانی فوج ایک بار پھر وزیرستان میں اپنے طالبان کو منظم کر رہی ہے تاکہ پھر پشتون قوم کو اسی اسلامی شدت پسندی کی جہنم میں دکھیل کر انکی نسلوں کو تباہ کیا جائے تاکہ ریاستی فوج پشتون نسل کی جانوں سے کھیل کر اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کر سکے۔

آج پشتونوں کی تحریک وسیع تر ہوتی جا رہی ہے،پہلی دفعہ پشتون قوم کے باہمی تعلقات افغانستان میں بسے پشتونوں سے استوار ہوئے اور انکو اپنے مشترکہ دشمن کی پہچان ہوئی جو یقینا نیک شگون ہے۔20 مارچ کو چار پشتون کمسن لڑکوں جنکی عمریں `13 سے17 سال کے درمیان تھیں انکی گولیوں سے چھلنی نعشیں پاکستانی آرمی کیمپ کے عقب سے ملیں،مقامی ذرائع کے مطابق بچوں کو کئی روز تک پاکستانی فوجی اپنے کیمپ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے اور آخر کار انکو مار کر لاشیں پھینک دی گئیں،۔ اس فاشزم کے خلاف عوام نے احتجاج کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا مگر بدنام زمانہ آئی ایس آئی نے پھر کمیٹی اور انکوائرئی کا گیم کھیلا،۔

اپریل کے مہینے میں پھر فوجی چھاونی کے قریب وزیرستان میں دو مسخ لاشیں ملیں،پشتون قوم کو اپنی دشمن کا اندازہ ہے مگر ایک مظبوط چالاک دشمن کے خلاف پشتون رہنما اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں لگتے کہ وہ بلوچوں کی طرح مزاحمت کا راستہ اپنائیں بہر حال پی ٹی ایم کے رہنماؤں سمیت علاقائی عمائدین نے ونگ کمانڈر کرنل راحیل حسین، کیپٹن بلال،صوبے دار میجرغنی خٹک، کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا،مگر اسٹیبلشمنٹ اپنے پھالے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کیسے ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔

اسی طرح26 اپریل کوپاکستانی سیکورٹی اہلکاروں نے ساؤتھ وزیرستان میں ایک دکان پر فائرنگ کر کے دو نوجوانوں کو قتل اور ایک کو زخمی کیا،پی ٹی ایم کے ممبران اور عوام نے اس دہشت گردی کے خلاف شدید احتجاج کیا،لوگ کہتے ہیں کہ روزانہ اسی طرح کی وحشیانہ تشدد کا انکو پاکستانی فورسز سے سامنا ہے،اور پشتون قوم کے خلاف ہونے والی بربریت پر پاکستان کو جواب دے بنانا چائیے۔

پشتون قوم پر ریاستی جبر کے واقعات میں اب بھی کمی نہیں آئی ہے،جب بھی لوگ ریاستی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو انکو کسی نہ کسی طرح نشانہ بنایا جاتا ہے،خاص کر 2019 میں شمالی وزیر ستان میں سیکورٹی اہلکاروں نے پشتون تحفظ موؤمنٹ کے پر امن مظاہرئے پر فائرنگ کر کے13 افراد کو قتل اور30 کو زخمی کیا،اُس واقعے کے نقوش آج بھی پشتون قوم کے ذہنوں میں موجود ہیں اور اس ریاستی حملے کے بعد نفرت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ دور میں پاکستانی خفیہ ادارے اسکی فوج ایک بار پھر وزیر ستان میں پشتون قوم پرستی کو کچلنے کے لیے طالبان کو منظم کر رہی ہے،وزیرستان سے رپورٹس کے مطابق جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے طالبان کو اپنی چھاونی میں جگہ دے کر انھیں ایک بار پھر سے منظم کیا جا رہا ہے اور باقاعدہ طالبان اسلحہ سمیت بازاروں کا گشت بھی کرتے ہیں،سوشل میڈیا میں اس طرح کے کچھ تصاویر بھی شواہد کے طور پر موجود ہیں۔

پشتون نوجوان سوشل میڈیا پر آج کل ایک مہم بھی چلا رہے ہیں کہ پاکستان کو پشتون قوم کی منظم نسل کشی کے خلاف انصاف کے کٹہرئے میں لایا جائے اور پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ پشتون نسل کشی بند کرئے۔

پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پشتون قبائلی علاقوں میں بدامنی کو برقرار رکھنے اور پھیلانے کی پالسیی پر عمل پھیرا ہے،تاکہ وہ اسلامی شدت پسند نظریات کو منظم کر کے افغانستان میں امریکی و اسکے اتحادی افواج کی انخلاء کے بعد اپنے انسانی اسلامی بموں (یعنی خودکشوں) کے ذریعے افغان کی داخلی و خارجی پالیسی پر اپنی گرفت کو برقرار رکھنے کے ساتھ،پشتون قوم پرستی کے نظریہ کو ختم کر سکے۔

پشتون قوم کو پاکستانی پراکسی وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،انھیں اسلامی شدت پسندی کے اہم ٹول کے طور پر ہمیشہ فرنٹ لائن پر رکھ کر آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج نے استعمال کیا ہے،اب دیکھنا ہو گا کہ پشتون تحفظ موؤمنٹ کے رہنما ریاست کی خطرناک پالیسی کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں،کیا وہ پشتون قوم کی قومی شناخت و اپنی آنے والی نسلوں کی مستقبل بچا سکیں گے اس سوال کا جواب وقت ہی دے سکے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں