نیوز انٹرونش
خصوصی رپورٹ
نام نہادآزاد کشمیر بارڈر پر ظلم کے مارے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ چکری روڑ راولپنڈی کے مقام پر پاکستان کے دہشت گرد عادی مجرموں نے ظلم کی انتہا کر دی مکانات پر قبضے کرنے کے اہم انکشافات۔ پاکستان نوازسیاسی لیڈر منسٹر غلام سرور بھی ڈاکوں اور مقامی بدماشوں کی حمائت میں میدان میں آگیا۔ اسلحے کی بھری گاڑیاں لیکر کشمیریوں پر فائر کھول دی گئی،فائرنگ کی ضد میں مقامی گروپ کا اپنا ہی شخص ہلاک۔
ہلاک شدہ شخص کشمیریوں کے کھاتے ڈال کر درجنوں مظلوم کشمیریوں پر غلام سرور نے ایف ای ار درج کروا دیں۔
چکری کا نام ذہن میں آتے ہی ہر شخص کے ذہن میں کچھ اچھا عکس نہیں آتا، یہ جگہ واقعی قاتلوں سفاکوں ظالموں لوٹیروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے بلکے یہ علاقہ اور نام اپنے اندر ایک گھناونی تاریخ رکھتا ہے گو کہ یہاں کہ کچھ اچھے اور باخلاق لوگ بھی ہیں مگر وہ تعداد میں کم ہیں اور وہ ان ظالموں لوٹیروں قاتلوں کو روکنے میں ناکام دیکھائی دیکھتے ہیں۔
صورتحال کا دوسرا رخ کچھ اس طرح ہے کہ کشمیر کے دور دراز بارڈر آئریاز سے آئے ہوئے لوگ جو پہلے ظلم و ستم سے تنگ آکر اور جان بچا کر پناہ لینے راولپنڈی اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تھوڑے سے سستے اور سائیڈ ائریاز میں پلاٹ لیکر مکان بنا کر رہائیش پزیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں کچھ تو مکان وغیرہ بنانے سے پہلے ہی راولپنڈی کے نام نہاد مسلمان بھائیوں کے روپ میں نوسربازوں اور ڈاکوں کے ہاتھوں لوٹ جاتے ہیں جو بچ جائیں ان کو یہ لوگ صبح و شام دھمکیاں دیتے ہیں ان کو لوٹتے ہیں ان کے کاروبار نہیں چلنے دیتے ان دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو پانچ ہزار دس ہزار کی وجہ سے قتل کر دینا معمول کی بات ہے۔
اسی طرح کا ایک واقع چکری روڑ کوہالہ پیلو روڈ پے عید سے ایک دن قبل کچھ اس طرح ہوا کے ایک دوکاندار جس کا تعلق مظفرآباد کے دور افتادہ گاوں سے تھا سیز فائر لائن کی شییلنگ سے یہ خاندان تنگ آ کر یہاں پناہ گزینوں والی زندگی گزار رہا تھا،انکو25-30 لوگوں نے ملکر شدید مارا پیٹا صرف اس وجہ سے کے اس نے مقامی بچوں کوکیوں ڈانٹا، جبکہ وہی بچے جن کی عمریں 17_18 سال کی تھی وہ اس آدمی کی دوکان میں پٹاخے اور پتھر ماررہے تھے، ان مقامی لوگوں نے اس شخص کومارنے کے بعد یہ دھمکی دی تمھاری جرت کیسے ہوئی ہمارے بچوں کو ڈانٹا ہے،
پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے مظلوم شکص کو دھکمی دی گئی کہ ہم یہاں کی مقامی ہیں ہم بندے کو زندہ دفن کر دیتے ہیں ہم کو کوئی پوچھنے والا نہیں کان کھول کے سن لو ادھر پولیس اور حکومت ہماری ہے اور یہ ڈائیلاگ بولا کے سرکار تے ساڈی اپنی اے اوتوں بندے نال دے وی تگڑے نے۔۔(گویا یہ ابوجہل کی اودلا انتہاء انا اور جہالت میں لت پت ہیں)
دوسرے دن پھر ان سے اخلاقی سطح پے احتجاج کرنے کی پاداش میں ان کشمیر کے غریب لوگوں کو شدید مارا گیا،پھر یہ تنگ آکر سب اکھٹے ہوئے لڑائی شدید ہوئی تو ان کوہالہ کے مقامی لوگوں کو جو کے عادی مجرم اور نشے کے عادی ہیں ان مخنتی اور مظبوط ہاتھوں سے مار کھائی تو پھر اسلحہ کا سہارا لیا ایک دم گاڑیاں منگواء جن میں اسلحہ تھا کلاشنکوف اور پستول سے آندھی فائرنگ کی گئی ان مقامی ریاستی پشت پناہی والے دہشت گردوں نے انکی عورتوں اور بچوں تک کو زخمی کیا گیا یہاں ایک نکتہ سمجھنے کا ہے کشمیریوں کی حالت ہندوستان نے نہیں بلکہ یہاں تو دوران پناہ پاکستانیوں نے انکے ساتھ ذلت آمیز حرکت کی،جو کشمیرکو شہ رگ کہتے ہیں انہوں نے بھی وہی روایت قائم رکھی جو بلوچستان،سندھ،پشتونستان میں کرتا ہے۔ یہاں گلہ کریں تو کس سے کریکوئی؟؟؟
بات یہاں ختم نہیں ہوتی اس منافق معاشرے کے لوگوں نے اپنی دشمنی کی چال کچھ اس طرح چلی مقامی لوگوں نے فائرنگ میں اپنا ایک آدمی خود قتل کر دیا اور سارا مدعا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کر کے جس میں سب سے بڑا کردار حکومت کے ایک منسٹر غلام سرور خان کے رشتے دار شفیق یا شفیع نامی آدمی جس نے تھانہ صدر بیرونی میں آگیا اور پولیس کو بھی دباو میں لا کر سب لوگوں کو دھمکیاں بھی دی گئی اور 60 بے گناہ لوگوں کو آیف آئی آر میں نامزد کیا گیا تاکہ کوئی آدمی بھی تھانے کچہری نہ جاسکے یوں یہ مزید زلیل ہوں یعنی کے ایک سوچی سمجھی سازش نہتے غریب لوگوں کے خلاف رچی گئی جو بدمعاشی کے زور پے ان کے مکانوں کو ہڑپ کرنے کے درپے ییں، اور ایک وکیل طاہر ایوبی کو جو بے گناہ بھی ہے اور اس کو لڑائی روکوانے کے جرم میں پہلے مارا گیا پھر آریسٹ کرا دیا گیا۔
اتنا ظلم؟اتنی بربریت؟ اور فرعونی نظام۔؟اس نام نہاد اسلامی ملک میں؟ اس نام نہاد مدینہ کی ریاست میں۔؟ یہ ملک شاید ان نانصافیوں کی ان بدیانت افسروں کی اور لوٹیرے اور قاتلوں اور سفاکوں کی بھینٹ چڑے گا۔
آج کشمیری عوام نہ کہ نام نہاد آزاد کشمیر میں سکون کی زندگی گزار سکا ہے بلکہ پاکستانی فوج اسکے پالے ہوئے بدمعاشوں نے انھیں کہیں بھی چھین سے بسنے نہیں دیا ہے۔