مقبوضہ بلوچستان کے تین مختلف اضلاع سے پاکستانی فورسز نے 6 افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پرمنتقل کردیا ہے۔ ان میں سے ایک کو فورسز نے پنجگور کے علاقے پروم سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا, تین کو ضلع خضدار سے لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ دو نوجوان ضلع کیچ سے لاپتہ کیے گئے۔
ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت محمود ولد ہاشم کے نام سے ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق محمود بنیادی طور پر پنجگور کے علاقے پروم کا رہائشی ہے روز گاری کے باعث اپنے آبائی علاقے سے ہجرت کرکے مغربی بلوچستان کے شہر سراوان میں اس وقت مقیم ہے اور وہ تیل کے کاروبار سے بھی منسلک ہے اور فورسز نے اسے اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جب وہ تیل لے کر پنجگور جارہا تھا۔
بلوچستان کے ضلع خضدار اور قلات سے پاکستانی فورسز نے تین نوجوانوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
خضدار کے علاقے زہری سے تعلق رکھنے والے تینوں نوجوانوں کو گذشتہ روز فورسز نے لاپتہ کیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ یاسر ایوب ولد محمد ایوب کو زہری کے علاقے تلاوان سے گذشتہ روز پاکستانی فورسز نے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔فورسز اہلکاروں نے گھر میں موجود خواتین اور دیگر افراد کو زدوکوب کیا جبکہ گھر میں توڑ پھوڑ کی۔
گذشتہ روز ہی زہری کے رہائشی دو نوجوانوں بہادر خان ولد حیدر خان اور غلام قادر ولد حضور بخش کو قلات سے زہری کی طرف جاتے ہوئے کپوتو کے مقام پر سی ٹی ڈی اہلکاروں فائرنگ کرکے زخمی حالت میں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر لے گئے۔سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ افراد مسلح تھے جنہیں فائرنگ کے تبادلے کے بعد گرفتار کیا گیا تاہم علاقائی ذرائع کے مطابق مذکورہ نوجوان غیر مسلح تھے جنہیں اہلکاروں نے دیکھتے ہی فائرنگ کا نشانہ بنایا۔
واضح رہے رواں سال مارچ کے مہینے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ مستونگ میں ہونے والے ایک مقابلے میں بلوچ مسلح تنظیم کے پانچ ارکان مارے گئے ہیں تاہم بعدازاں مذکورہ افراد کے لواحقین نے سی ٹی ڈی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ افراد پہلے سے زیرحراست تھے۔
ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں پاکستانی فوج نے ایک نوجوان کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔30 مئی کو پاکستانی فوجی اہلکاروں نے گروک، ھوشاپ ضلع کیچ میں متعدد مکانات پر چھاپے مارے اور منظور ولد واجو کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔جارحانہ کارروائیوں کے دوران پاکستانی فوج نے گھروں کے قیمتی سامان لوٹ لیے اور خواتین پر تشدد کیا۔
ضلع کیچ سے پاکستانی فوج نے نو عمر طلال دوست محمد بلوچ کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔طلال ولد چیئرمین دوست محمد کو 23 مئی 2021 کی رات کو ان کے گھر واقع گومازی، تحصیل تمپ ضلع کیچ سے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کیا۔ طلال کے ساتھ دیگر 9 افراد کو بھی جبری لاپتہ کیا گیا جنھیں بعد میں رہا کیا گیا لیکن طلال سمیت تین افراد تاحال جبری لاپتہ ہیں۔ان کے لواحقین جب ان کی رہائی کے لیے متعلقہ حکام سے بات کرتے ہیں تو انھیں جھوٹے وعدے دیکھ کہا جاتا ہے کہ انھیں کل رہا کیا جائے گا لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں آسکی۔
علاقائی ذرائع نے کہا ہے کہ طلال آٹھویں کلاس کا طالب علم ہے اور کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمی سے وابستہ نہیں جو ریاست یا پاکستانی فوج کے لیے ناپسندیدہ ہو لیکن اس کے باوجود انھیں مسلسل نشانہ بنا کر ذہنی اور جسمانی ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ 5 مئی سنہ 2019 کو انھیں کراچی سے جبری لاپتہ کیا گیا اور ایک مہینے ٹارچر سیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا، طلال کراچی میں زیر تعلیم تھے۔ جبری گمشدہ کیے جانے کے بعد طلال تعلیم ادھوری چھوڑ کر گاؤں واپس آگیا اب یہاں بھی اسے فوجی تشدد کا سامنا ہے۔
طلال کے والد چیئرمین دوست محمد جو ایک مقامی سیاسی رہنماء تھے انھیں 22 مئی 2017 کو تربت سے کراچی جاتے ہوئے ایم آئی اہلکاروں نے بس سے اتار کر جبری لاپتہ کیا اور تین دن بعد کنچتی دشت میں ان کی تشد زدہ لاش پھینک دی گئی۔ چیئرمین دوست محمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں پارلیمانی جماعت بی این پی عوامی میں بھی شامل رہے لیکن جب انھیں پاکستان کی ملٹری انٹلی جنس نے اغوا کرکے قتل کیا تب وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے۔
چیئرمین دوست محمد کے قتل کے چند مہینے پہلے ان کے بیٹے طاہر دوست کو بھی گومازی کے ہسپتال میں دوران ڈیوٹی نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا طاہر دوست محمد چیئرمین دوست محمد کے بڑے بیٹے اور اپنے گھر کے کفیل تھے۔