طالبان کے ساتھ ایک جھڑپ میں مسلح شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے سربراہ کے بھائی ’ عمیر ناروئی‘ سمیت تنظیم کے دو کمانڈر ہلاک ہوگئے ہیں۔
جیش العدل ایران میں سنی حقوق کے دفاع کے لیے مسلح جدوجہد کی دعویدار تنظیم ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک خبر میں دعوی کیا گیا ہے کہ جمعہ کے روز جیش العدل کے سربراہ کا بھائی ’عمیر ناروئی‘ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ڈک کے مقام پر اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے گیا تھا جہاں طالبان اراکین کی فائرنگ کے نتیجے میں اس کی ہلاکت ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چند ماہ پہلے جیش العدل کے پانچ اراکین کو طالبان نے گرفتار کیا تھا اور عمیر اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے طالبان سے مذاکرات کے لیے گیا تھا۔ جب وہ طالبان کے آفس میں داخل ہورہے تھے ان پر فائرنگ کی گئی۔ اس جھڑپ میں جیش العدل کا ایک اور رکن ’طاہر شاھوزھی‘ عرف ’عبدالکریم جان‘ بھی ہلاک ہوگیا۔
اس جھڑپ میں طالبان کے بھی پانچ اراکین ہلاک ہوئے جبکہ جیش العدل کے دو افراد عمر ناروئی اور طاھر شاھو زھی کے علاوہ تین اراکین زخمی بھی ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ جیش العدل کے اراکین بھی طالبان کے دو ارکان کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
تاہم اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں ہے کہ جھڑپ افغانستان کے کس صوبے میں ہوئی ہے ’ڈک‘ نوکنڈی اور افغانستان کے صوبہ ھلمند کے درمیان سرحد کی دونوں طرف واقع ایک علاقے کا نام ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کی سرزمین پر ہوا ہے۔
افغانستان کے انٹلی جنس ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس)کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے ہفتے کی شام کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انتہائی انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق ایران کے خلاف لڑنے والے سنی مذہبی شدت پسند گروپ جیش العدل اور افغان طالبان کے درمیان اختلافات کے باوجود پاکستانی خفیہ ادارے نے بلوچستان کے علاقے دالبندین، نوشکے، ماشکیل اور پنجگور سے جیش العدل کے کم و بیش 600 شدت پسندوں کوطالبان کی مدد کے لیے نیمروز ، ہرات اور فراہ مکمل جنگی سازوسامان کے ہمراہ روانہ کیا ہے ۔
رحمت اللہ نبیل نے بہ یک وقت انگریزی ، اردو اور فارسی میں ٹویٹ کیا ہے۔
یہ ٹویٹ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب افغانستان میں جیش العدل کے اراکین پر طالبان کے حملے کی خبر سامنے آئی ہے ، دونوں ذرائع افغانستان میں جیش العدل کی موجودگی کی تائید کرتے ہیں۔
ایرانی حکومت مخالف میڈیا یہ دعوی کرتا ہے کہ ایران طالبان کی حمایت کر رہا ہے اس لیے طالبان اس کے دشمنوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن دیگر ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ طالبان اور جیش العدل کے درمیان اختلافات دیرینہ ہیں۔ ماضی میں بھی طالبان نے ھلمند میں جیش العدل کے کیمپ پر حملہ کرکے انھیں وہاں سے مار بھگایا تھا۔
طالبان نے جیش العدل پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے سابق سربراہ مالک ریکی نے امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی ، رحمت اللہ نبیل کی تازہ ٹویٹ میں بھی اختلاف کا ذکر موجود ہے۔
جیش العد ل کی طرف سے پس پردہ یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ مالک ریکی کو ایران کے حوالے کرنے میں بھی طالبان کا ہاتھ ہے۔ حال ہی میں اپنے ایک بیان میں جیش العدل نے طالبان یا بقول ان کے امارات اسلامی سے متعلق خود سے منسوب ایک بیان کی تردید کی ہے تاہم جیش العدل کی ویب سائٹ پر جس بیان کی تردید کی گئی ہے اس کے مندرجات کا ذکر نہیں۔
جیش العدل کے بارے ایسے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں کہ جیش العدل پاکستانی فوج کے ساتھ قریبی تعلق رکھتی ہے ، پاکستانی فوج نے مشرقی بلوچستان میں جیش العدل کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے ہیں۔جس کے بدلے جیش العدل نے کئی مرتبہ مشرقی بلوچستان کی سرزمین پر بلوچ سرمچاروں پر قاتلانہ حملے کیے ہیں، ان کی سواریوں کو قبضے میں لیا ہے اور ان کی مخالفت میں بیانات دیے ہیں۔