عام معافی کے باوجود طالبان نے شہریوں کا انتقامی قتل کیا، طالبان وزیر دفاع کا اعتراف

0
87

طالبان کے وزیر دفاع اور افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب نے تسلیم کیا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے شہریوں کے ’انتقامی قتل‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔

طالبان کے ترجمان اور نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جمعرات کو ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے والے اس آڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’حال ہی میں کچھ واقعات ہوئے ہیں جن میں غیر ذمہ داری سے لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔ دو یا تین لوگ مارے گئے ہیں۔‘

ملا یعقوب کا کہنا تھا کہ ’اسلامی امارات نے تمام فوجیوں، بدترین مخالفین، ہمیں شہید اور ہراساں کرنے والے لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے اور مجاہدین میں کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ اس کی خلاف ورزی کریں اور انتقامی کارروائی کریں۔‘

تاہم افغان وزیرِ دفاع کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان واقعات میں ملوث طالبان جنگجوؤں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔

15 منٹ کے آڈیو کلپ میں ملا یعقوب نے طالبان جنگجوؤں سے کہا ہے کہ وہ طالبان قیادت سے وفاداری دکھائیں۔ ’اگر کوئی اپنے چھوٹے سے ذہن میں کسی خیال کی بنا پر (اسلامی امارات کے) نظام کی پالیسی کو رد کرتا ہے تو درحقیقت یہ شخص اس نظام یا اس کے مقاصد کا وفادار نہیں۔‘

ملا یعقوب کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب عالمی خبر رساں اداروں نے اپنی تحقیقات میں دعویٰ کیا کہ طالبان نے ہتھیار ڈالنے والے بعض شہریوں اور فوجیوں کو قتل کیا۔

رواں ماہ 13 ستمبر کو بی بی سی کو علم ہوا تھا کہ طالبان اور قومی مزاحمتی محاذ کے درمیان ہونے والی لڑائی کا مرکز رہنے والی افغانستان کی وادی پنجشیر میں کم از کم 20 شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔

پنجشیر سے ملنے والی ایک فوٹیج میں فوجی وردی پہنے ایک شخص کو طالبان کے نرغے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر فائرنگ کی آواز آتی ہے اور وہ شخص زمین پر گر جاتا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ مرنے والا شخص افغان فوج کا رکن تھا کہ نہیں۔ ویڈیو میں ایک راہ گیر ضرور یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ایک عام شہری تھا۔ بی بی سی نے تصدیق کی تھی کہ پنجشیر میں ایسی 20 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مرنے والوں میں عبدالسمیع نامی دکاندار بھی تھا جو دو بچوں کا باپ تھا۔

مقامی ذرائع کے مطابق طالبان کے پنجشیر میں آنے کے بعد اس نے انھیں بتایا کہ ’میں ایک غریب دکاندار ہوں جس کا جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔‘

تاہم اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس پر مزاحمتی محاذ کے ارکان کو سم کارڈ بیچنے کا الزام لگایا گیا اور پھر چند دن بعد اس کی لاش اس کے گھر کے پاس پھینک دی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق عبدالسمیع کی لاش پر تشدد کے نشانات بھی موجود تھے۔

گذشتہ ہفتے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ طالبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔

ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا دینوشیکا دیسانیاکے نے کہا تھا کہ ’ہم نے تشدد کی لہر دیکھی ہے جس میں بدلے کے لیے حملے، خواتین پر پابندیاں، اور مظاہروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہیں۔‘

اس سے قبل ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ طالبان نے حالیہ مہینوں میں پنجشیر اور دیگر صوبوں میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ ان علاقوں میں خود جا کر حقائق معلوم کر سکتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں