مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی میں گورنر ہاؤس کے سامنے گذشتہ پانچ دنوں سے دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہوشاپ واقعہ کے لواحقین نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے مطالبات کی عدم منظوری پر اسلام آباد مارچ کرنے اور بلوچستان بھر میں دھرنا و شاہراؤں کو بلاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ کل کی پریس کانفرنس میں ہم نے تمام تر تفصیلات میڈیا کے سامنے رکھے تھے کہ کس طرح اپنے شہریوں کے انصاف فراہم کرنے کے لیے ریاست بے حس اور غیر سنجیدہ ہے۔
آج کے دن یعنی اتوار 17 اکتوبر کو اس ریاستی بے حسی اور غیر سنجیدگی کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں عوام سراپا احتجاج تھے۔ کوئٹہ، کراچی، تربت اور گوادر میں لوگ شدید غم و غصے کی حالت میں اپنے گھروں سے نکلے تھے اور اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ بلوچستان بھر میں عومی غم و غصہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ لوگ اس ظلم کے نظام سے تنگ آچکے ہیں اور اب ظلم و جبر لے خلاف خاموشی کے بجائے سخت ترین احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج حکومتی مذاکراتی ٹیم کمشنر کوئٹہ کی سربراہی میں لواحقین سے ملنے آئے تھے۔ لواحقین نے اپنے مطالبات مذاکراتی ٹیم کے سامنے رکھیں جس میں بچوں کے قاتلوں کے خلاف ایف، آئی، آر سرفہرست تھا۔ سب سے پہلے حکومتی مذاکراتی ٹیم لواحقین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ اس ایف، آئی، آر والے نکات سے دستبردار ہوجائے لیکن لواحقین کا موقف تھا کہ ہمارے بچے ایف سی کی جانب سے فائر کردہ مارٹر گولے سے شہید ہوئے ہیں لہذا ایف آئی آر بھی ایف سی کے متعلقہ ذمہ دار کے خلاف درج کیا جائے۔ مذاکرات کے آخر میں حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اس نکات پر آپس میں مشورہ کرنے کے لیے لواحقین سے وقت مانگا لیکن اس کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے لواحقین کو پیغام پہنچایا گیا کہ ہم ایف سی کے کسی بھی اہلکار کے خلاف ایف آئی آر نہیں کرسکتے جبکہ ہم اس سے قبل لاشوں کی پوسٹ مارٹم کریں گے اگر پوسٹ مارٹم سے یہ ثابت ہوگیا کہ بچوں کی شہادت مارٹر گولے فائر کرنے سے ہوہے تو ہم ایف آئی آر ایف سی کے کسی اہلکار کے خلاف درج کریں گے اگر بچوں کی شہادت ہینڈ گرینیڈ سے ہوئی ہے تو ھم ایف آئی آر فیملی کے خلاف درج کریں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رویے اور اختیارات سے واضح ہوچکا ہے کہ وہ کسی بھی صورت بچوں کے قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کریں گے۔ جس طرح انہوں نے پوسٹ مارٹم کی ڈیمانڈ رکھی ہم لواحقین اس ڈیمانڈ کو پوری طور پر مسترد کرتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پوسٹ مارٹم رپورٹ کو تبدیل کرکے کسی بھی صورت بچوں کے قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ جہاں تک بات ایف سی کی مارٹر گولے فائر کرنے اور اس سے بچوں کی شہادت کی تعلق ہے تو اس بات پر سب سے پہلے تحصیل دار کی رپورٹ آئی جس میں واضح درج تھا کہ بچوں کی شہادت ایف سی کی جانب سے فائر کردہ مارٹر گولے سے ہوئی ہے اس کے علاوہ اہل علاقہ، آل پارٹیز کیچ، اور ہم خاندان کے لوگ اس بات کی گواہ ہے کہ ایف سی کی جانب سے مارٹر فائر ہوئے جس سے بچوں کی شہادت ہوئی ہے۔ جہاں تک بات پوسٹ مارٹم کی ہے تو جس دن واقع ہوئی ہم اُسی دن سے دھرنے دئیے ہوئے ہیں حکومت کو اس وقت پوسٹ مارٹم کا کوئی خیال نہیں آیا۔ جبکہ اس کے برعکس حکومتی ادارے روز اوّل سے ایف سی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے روز ایک نئی بات سامنے لاتے ہیں جبکہ ہمیں خاموش کرانے کے لیے تربت دھرنے میں پیسوں کی لالچ بھی دی گئی۔ اور ہم سمجھتے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو تبدیل کر کے ہم غریب لواحقین کو احتجاج کرنے کی سزا دی جائے گی لیکن ہم حکومت کی کسی بھی سازش اور دھمکی سے مرعوب نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے قاتل ایف سی اہلکار ہے۔ ہمارے بچوں کی قتل کے ایف آئی آر ایف سی کے خلاف درج نہیں کیا گیا تو ہم کسی بھی صورت اس دھرنے کو ختم نہیں کریں گے۔ ہم نہ کسی لالچ میں آئیں گے اور نہ ہی کسی دباؤ یا دھمکی سے پیچھے ہٹیں گے۔ ہم اس احتجاجی دھرنے کو مزید وسعت دیں گے۔ کل کوئٹہ کے اہم شاہراہیں بند کی جائے گی اور انتظامی کاموں کے بعد جلد از جلد اسلام آباد کی جانب لاشوں کے ہمراہ مارچ کریں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ میں اپنے پریس کانفرنس میں بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ تما م لوگ اپنے گھروں سے نکلے اور ہماری آواز بنیں۔ بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا آغاز کریں۔