پاکستانی فوج نے 3جبری لاپتہ افرادکوایران بارڈر کے اندرلے جاکربے دردی اور بے رحمی سے گولیوں سے بوند ڈالا،جن میں 2ہلاک جبکہ ایک شدید زخمی حالت میں زندہ پایا گیا ہے۔
مارے جانے والوں کی شناخت میرخان محمد شاہوانی اور اسداللہ ولد ناصر سکنہ مند کے نام سے ہوگئی جبکہ زخمی ہونے والے کی شناخت غلام قادر ولد عبداللہ سکنہ قلات کے نام سے ہوگئی ہے۔
بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرمیڈیا ہاؤسزڈیلی سنگرآن لائن نے مقامی میڈیا ”زرمبش ریڈیو“ کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ پاکستانی فوجی اہلکاروں نے زیرحراست جبری لاپتہ 3 افراد کو ایران کے زیر انتظام سیستان بلوچستان کے ضلع سرباز کے گاؤں ہنگ کے مقام پر پیر کور میں لاکر گولیوں سے بوند ڈالا جس سے دو افرادہلاک جبکہ ایک شخص شدید زخمی ہوگیا۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک شخص کی شناخت اسد ولد ناصر سکنہ مند کے نام سے ہوئی ہے جو کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں پہلے سے مارے گئے یاسر کے بڑے بھائی تھے انھیں دو سال قبل پاکستانی فوج نے ان کے گھر سے جبری لاپتہ کیا تھا۔
جہاں مذکورہ افراد کو گولیاں ماری گئی ہیں وہ علاقہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کی سرحد سے 30 سے 40 کلومیٹر دور ایران کے زیر انتظام سیستان بلوچستان کا علاقہ ہے۔
سپاہ پاسدران انقلاب ایران کے ایک مقامی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر ”ریڈیو زرمبش“کے نامہ نگار کو بتایا کہ پاکستانی فوجیوں نے ایرانی سرحد کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے 40 کلومیٹر اندر آکر یہ کارروائی کی ہے جو کہ ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے ایک چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا پاکستانی فوجی اہلکار گذشتہ کافی عرصے سے ایران کے خلاف جارحانہ رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ گولڈاسمتھ لائن پر پہلے بھی لاشیں ملی ہیں جو بلوچ آزادی پسندوں کی تھیں جن کے قاتلوں کے بارے میں پتا چلا تھا کہ انھیں ایم آئی کے مقامی ایجنٹوں نے قتل کیا تھا لیکن حالیہ تین افراد کے بارے میں زخمی شخص سے معلوم ہوا ہے کہ وہ قلات کے رہائشی ہیں اور تمپ میں پاکستانی فوج کے زیر حراست تھے اور انھیں ایران کی سرزمین پر لاکر پاکستانی فوجی اہلکاروں نے گولیاں ماریں جو کہ ایران کو بدنام کرنے کی سازش ہوسکتی ہے، جو ہمارے لیے تشویشناک بات ہے۔
ایرانی سپاہ پاسدران کے اہلکاروں نے لاشوں اور زخمیوں کو تحویل میں لے کر لاشوں کو مردہ خانے اور زخمی کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا۔
ادھر ہسپتال کے ذرائع سے پتا چلا ہے کہ زخمی شخص کے جبڑے پر گولیاں لگنے سے وہ بات کرنے کے قابل نہیں لیکن انہوں نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ وہ ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کے مرکزی قصبہ تمپ میں پاکستانی فوج کے زیر حراست تھے اور وہ قلات کے رہنے والے ہیں۔ انھیں قلات میں گرفتاری کے بعد تمپ منتقل کیا گیا تھا اور انہیں پاکستانی فوج نے ایران کے علاقے ہنگ میں لاکر گولیاں ماریں۔
جائے وقوع سے ایک شناختی کارڈ بھی ملا ہے جس پر نام ’غلام قادر ولد عبداللہ‘ اور موجودہ پتہ’کلی کمبرانی، شیشہ ڈگار ڈاکخانہ قلات، تحصیل و ضلع قلات درج ہے۔
مارے جانے والے اسد ولد ناصر سکنہ نوکیں کہن مند کی بہن کے مطابق انہیں یکم جولائی 2019 کو نوکیں کہن میں واقع ان کے گھر سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا۔ اسد کے چھوٹے بھائی یاسر کو بھی جبری لاپتہ کرکے شہید کیا گیا تھا۔
مارے جانے والے اسد چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے جو گذشتہ تین سالوں سے پاکستانی عقوبت خانے میں قید تھے۔ان کے اہل خانہ نے ان کی رہائی کے لیے میڈیا کمپئن بھی چلائی تھی۔اسد شادی شدہ تھے اور ان کے دو بچے ایک بیٹا اور بیٹی ہیں۔
زیرحراست قتل کیے گئے میرخان محمد شاہوانی کے بھائی بشیر احمد کے مطابق خان محمد کو 17 جون 2019 کو زہری سے لیویز اہلکار اور پاکستانی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیاتھا۔ 15 جولائی 2019 کو ان کے بھائی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں جاکر اپنا احتجاج رکارڈ کروایا تھا، جسے میڈیا میں بھی رپورٹ کیا گیا۔
واضع رہے کہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں بھی اسی طرح اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے پر دیدہ دلیری اور دن دھاڑے خواتین و بچوں کا ریپ کرکے اورلوگوں کوزندہ ذبح کردرندگی کی مثال قائم کردی اور پھر بنگلہ دیش کو کھو کر دنیا بھر میں رسوا ہوکر خالی ہاتھ لوٹ گئے اب وہی کہانی بلوچستان میں دہرا رہی ہے ۔