گورنر اور وزیراعلیٰ کی محلات کے سامنے وی بی ایم پی کا دھرنا – رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

0
70


جولائی 2022 کی 12 تاریخ کو ذرائع ابلاغ میں خبر گردش کرنے لگی کہ پاکستانی فوج کالفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا بیگ اور اس کا چچازاد عمرجاوید اپنے اہل خانہ کے ساتھ زیارت سے کوئٹہ آتے ہوئے راستے میں مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا ہوگئے ہیں بعد میں اغوا کی ذمہ داری بلوچ آزادی خُواہ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی۔ پاکستان آرمی نے مغوی لیفٹیننٹ کرنل اور اس کے رشتہ دار کو چُھڑانے کے نام پر زیارت کے گرد و نواح میں فوری ایک بڑی فوجی کاروائی شروع کی۔ ایس ایس جی کمانڈوز، جیٹ جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر، جاسوس اور زمینی فوجی دستے بڑی تعداد میں زیارت روانہ کرنے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ فوج کے ردعمل سے اندازہ ہورہا تھا کہ کور کمانڈر کوئٹہ اور آرمی چیف مغوی لفٹننٹ کرنل اور اس کے رشتہ دار کو چھڑانے کے بجائے مروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کی طرف سے مغوی افسروں کو بحفاظت چھڑانے کیلئے طاقت کی فوری استعمال کے سوا دوسری کوئی کاوش نظر نہیں آئی۔لگتا ہے کہ اغواکار بھی فوج کا ارادہ بھانپ چکے تھے اسلئے انہوں نے بھی مغویوں کو زندہ رکھنے اور ان کی رہائی کے بدلے کسی قسم کے مطالبات پیش کرنے اور کوئی سودا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور جلدیکے بعد دیگرے دونوں مغویوں کو قتل کرکے ان کو زندہ رکھنے کا بوجھ سر سے اتار دیا۔

جولائی کی 14 تاریخ کو فوجی ترجمان نے اغوا کاروں کے ساتھ منگی ڈیم کے علاقہ میں جھڑپوں کے دوران دو مسلح افراد کو مارنے اور کرنل لئیق مرزا کے قتل ہونے کی خبر دی جبکہ 15 جولائی کو فوجی ترجمان نے خلافت کے پہاڑی علاقہ میں بی ایل اے کے ایک کیمپ کو گھیرے میں لے کر حملہ کرنے اور پانچ اغواکاروں کو مارنے کادعویٰ کیا اور ساتھ میں ایک فوجی اہلکار حوالدار خان محمد کے مارے جانے کی خبر بھی دیدی مگر بی ایل اے کے ترجمان نے فوجی ترجمان کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے لفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا بیگ اور اس کے چچازاد بھائی عمر جاوید کو اغوا اور قتل کرنے کے مشن میں حصہ لینے والے اپنے تمام ارکان کی بحفاظت نکلنے کا دعویٰ کیا۔

جولائی کی 16 تاریخ کوفوج نے زیارت ریسکیوآپریشن میں کل ملا کر 9 مسلح افراد کے مارے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے مقتولین کی لاشوں کو سول اسپتال کوئٹہ منتقل کرنے کی خبر دیدی جس پر بلوچ قوم دوست حلقے اپنے سوشل میڈیاتبصروں میں پاکستانی فوجی ترجمان کے دعوے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کرنے لگے کہ فوج نے یقینا انتقام کے جذبے کے تحت عام بلوچوں، بالخصوص جبری لاپتہ بلوچ فرزندں کو جعلی مقابلہ میں قتل کیا ہوگا۔ ان کے اس طرح کی خدشات کاسبب جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کی پاکستانی فوج کی اب تک کی پالیسی اور بلوچ دشمن کردار ہی تھا۔جب مقتولین کی تصاویر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع ہوئے تو بلوچ قوم دوست حلقوں کے خدشات بالکل درست نکلے۔ زیارت فوجی آپریشن میں شہید کئے گئے تمام افراد جبری لاپتہ بلوچ فرزندان وطن ہی تھے۔

یاد رہے بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں حزیمت اٹھانے کے بدلے میں عام بلوچوں کو قتل کرنا یاکوئی دوسری سزا دینا پاکستانی فوج کا بہت پرانا پالیسی ہے۔1970 کی دہائی میں مقبوضہ بلوچستان کے علاقہ کوہستان مری میں فوجی کاروائیوں میں حصہ لینے والے بریگیڈیئر عثمان نے اپنے یاداشتوں پر مبنی کتاب میں اس سفاکانہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب مری گوریلے کوئی فوجی اہلکار قتل کرتے تو فوجی اہلکار بدلے میں کسی عام مری کو پکڑ کر قتل کرتے تھے گمان یہ ہے کہ اس غیر انسانی وحشیانہ پالیسی کا مقصد بلوچ گوریلوں کے ہاتھوں حزیمت اٹھانے والے فوجی اہلکاروں کا مورال بلند رکھنا ہوتا تھا۔ اسی طرح جب یوسف رضا گیلانی اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے دوران کوئٹہ میں پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں پر سرمچاروں کے حملے بڑھ گئے تھے تو اس وقت کے کھٹ پتلی گورنر نواب ذولفقار مگسی نے پولیس پریڈ سے اپنے خطاب میں پولیس کو تاکید کیا تھا کہ اپنے ساتھی اہلکاروں کی قتل کے بدلے میں قبائلی طرز پر بلوچوں کو بھی قتل کریں۔جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل، بالخصوص بدلے میں قتل کرنے کی یہ سفاکانہ پالیسی جنگ اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

گو کہ زیارت کے جعلی مقابلہ میں جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کاقتل اپنی نوعیت کا پہلا واقع تو نہیں ہے بلکہ فوج، پولیس بالخصوص کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ، فرنٹئر کور اور انٹیلی جنس ادارے آئے روزبلوچ فرزندوں کو ماورائے عدالت قتل کرتے رہتے ہیں تاہم زیارت واقع میں جس بڑی تعداد میں جبری لاپتہ بلوچوں کو ایک ساتھ شہید کیاگیا اس سفاکیت نے بڑے پیمانے پر غم،غصہ، خدشات اور مزاحمت کے جذبات کو بھڑکا دیا جس کے بعد جبری لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے کوئٹہ میں کھٹ پتلی وزیراعلیٰ اور گورنر کے محلات کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئی جوکہ تا دم تحریر ہذا جاری ہے دھرنے میں شرکاء نے سادہ سے تین مطالبات پیش کئے ہیں:

۔ زیارت فوجی آپریشن کے دوران جعلی مقابلہ میں جبری لاپتہ بلوچوں کے قتل عام کی شفاف تحقیقات کرکے واقع کے ذمہ دار فوجی اہلکاروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔۔ تمام جبری لاپتہ افراد کو فوراً بازیاب کرکے منظر عام پر لایاجائے۔اگر کسی شخص پر کسی طرح کے کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے تو اس کا مقدمہ عدالتوں میں پیش کیاجائے۔


۔حکومت یقین دہانی کرائے کہ کسی بھی لاپتہ شخص کو جعلی مقابلہ یاکسی اور طرح سے ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جائے گا۔

گو کہ دھرنے کے تمام مطالبات نہ صرف قانونی ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا کسی بھی مہذب ملک و معاشرے میں حکام کا فرض ہے لیکن بلوچستان پر غیرقانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے جبری قابض پاکستان کی حکومت اور بلوچستان میں ان کے آلہ کارمذکورہ بالا قانونی مطالبات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں اس کے برعکس ان کا سارا زورکسی نہ کسی طرح دھرنا ختم کرانے پر مرکوز ہے جس کیلئے اب تک وہ مختلف حیلے اور ہتھکنڈے استعمال کرچکے ہیں کبھی پولیس و دیگر فورسز کے ذریعے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے خواتین اور بچوں کو طاقت کے استعمال کی دھمکی دے کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی وزراء، ارکان اسمبلی اور ضلعی انتظامیہ کے ذریعے مذاکرات کے نام پر فریب دینے کی کاوش کی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ایجنٹس کے ذریعے ان سے کہا جاتا ہے کہ چاہے آپ دھرنے پر جتنا عرصہ بیٹھیں احتجاج سے کچھ نہیں ہوگا ایسی باتوں کا مقصد انھیں مایوس کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ مایوس ہوکر اپنے پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد ترک کریں، ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کو جھنڈیاں تھما کرانھیں دھرنے کے شرکاء کے خلاف نعرے بازی کرواکر ان خواتین اور معصوم بچوں کو دھمکایا بھی گیا ایک آدھ بار سویلین افراد کے بھیس میں خفیہ اداروں کے ایجنٹس کے ذریعے ان پر گاڑیاں و موٹر سائیکلیں چڑھانے کی دھمکی دی گئی اور جواز یہ دیا گیا کہ ان کے احتجاج سے عوام کیلئے مشکلات پیدا ہورہے ہیں گویا پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں میں جبری لاپتہ ہزاروں بلوچ فرزندوں اور ان کے خاندانوں کا انسانی المیہ، ان کے حقوق کی یوں پامالی، ان کے مشکلات عوامی مشکلات کے زمرہ میں نہیں آتے، ان کا سڑکوں پر یوں خوار ہونا کوئی عوامی مسئلہ نہیں ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پیاروں کی زندگیوں کا کوئی مول و اہمیت نہیں ہے؟

اگست کی 26 تاریخ کو کھٹ پتلی حکومت کے وزیر میرضیاء لانگو نے دھرنے پر بیٹھے خواتین سے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ تو صوبائی انتظامیہ کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ صوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت سے متعلق ہے۔ ضیاء لانگو کے اس بیان سے کچھ دن پہلے کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہی منطق پیش کیا تھا کہ مسئلہ وفاق سے متعلق ہے جناب قدوس بزنجو نے اپنے کھٹ پتلی انتظامیہ کی بے اختیاری اور مسئلہ سے لاتعلقی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دھرنے کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کی اپنی فراغ دلی اور نرمی برتنے کا ذکر بھی کیا تھا دونوں حضرات کا اپنے آقاؤں سے وفاداری کی یہ حالت ہے کہ وہ مقبوضہ بلوچستان کو پاکستان کا صوبہ اور پاکستان کو ایک وفاق کہتے ہیں جبکہ بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کے انسانی مسئلہ پر پاکستان کی پارلیمنٹ، عدلیہ،میڈیا، حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی کردار اور پالیسیوں سے پاکستان اور بلوچستان کے مابین قاض و مقبوضہ کے نوآبادیاتی رشتہ کو سمجھنا کسی بھی ذی شعور انسان کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی یہ صورتحال ہے کہ جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے ملک کے مردہ اور بے وقعت دستور میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا تو بلوچ قوم دوستی کے دعویدار بعض جماعتیں اور رہنما اسے بہت بڑی کامیابی قرار دے کربلوچ نوجوانوں کو پاکستان میں برابر کے شہری ہونے کی نوید سنانے لگے اور ان میں سے ہر کوئی آٹھویں آئینی ترمیم کا سہرا اپنے سر پر باندھتے نظر آرہا تھا اب جبری گمشدگی کے مسئلہ پر قدوس بزنجو اور ضیاء لانگو کی بے اختیاری کے بیانات ان کے منہ پر زوردار تمانچہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اب وہ پاکستانی آئین و آٹھویں ترمیم کے صفحات پر بقول نواب اسلم رئیسانی نسوار بیچیں۔

بلوچ سیاسی کارکنوں، طلباء اورحقوق انسانی کی تنظیموں، سوشل میڈیا کارکنوں سمیت بلوچ قوم، بالخصوص کوئٹہ کے عوام پر یہ تاریخی ذمہ داری عائد ہوتا ہے وہ کھٹ پتلی گورنر اور وزیراعلیٰ کی رہائش گاہوں کے سامنے دھرنے پر بیٹھے عزت مآب بلوچ خواتین اور معصوم بچوں کی آواز بنیں، ان کی طاقت بنیں۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی انتھک جدوجہد، اس کے قیادت کی مستقل مزاجی اور بلوچ خواتین کی ہمت و بہادری کے ساتھ جدوجہد کا علم یوں بلند رکھنا انسانیت، آزادی اور جدوجہد پر یقین رکھنے والوں کیلئے عزم و حوصلے کا ایک روشن مینار ہیں نہ موسم سرما کی بارشیں اور خون جمانے والی سردبرفانی ہوائیں، نہ موسم گرما کے تپتے دنوں کی گرمی اور نہ حالیہ طوفانی بارشوں کے طویل سلسلہ سے ان کی پائے استقامت میں ایک لحظہ کیلئے بھی کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی ہے۔ یہی وہ عزم اور استقامت ہے جو قابض پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے مقامی آلہ کاروں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہے پاکستانی فوج کی انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے خلاف یہ انتھک جدوجہدایک ڈراؤنا خواب بن کر ظالموں کے اعصاب پر چھایا ہوا ہے اس لئے وہ کسی بھی طرح اس سے جان چُھڑانا چاہتے ہیں۔عزم، ہمت، حوصلہ اور مستقل مزاجی کے اس چراغ کو صبح آجوئی کی کرنیں بکھرنے تک ہر صورت روشن رکھنا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں