افغانستان: طالبان اقتدار میں پوست کی کاشت میں ایک تہائی اضافہ ہوا۔ اقوام متحدہ

0
131

افغانستان میں اس سال کے آغاز سے اب تک پوست کی کاشت میں تقریباً ایک تہائی کا اضافہ ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال پوست کاشت کرنے والے افغان کسانوں کے لیے سب سے منافع بخش برسوں میں سے ایک ہو گا۔

عالمی ادارے کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر ‘یو این او ڈی سی‘ کے مطابق ہندوکُش کی اس ریاست میں پوست کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والا رقبہ بتیس فیصد اضافے کے ساتھ دو لاکھ تینتیس ہزار ہیکٹر ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے اس ادارے کی جانب سے سن 1994ء میں پوست کی کاشت والے رقبے کی نگرانی کا عمل شروع ہوا تھا اور تب سے اب تک افغانستان میں 2022 ء کی فصل کو تیسرا سب سے بڑا کاشت شدہ رقبہ قرار دیا گیا ہے۔ قبل ازیں صرف 2018ء اور 2019ء وہ سال تھے، جن میں اس سے زیادہ رقبے پر پوست کی فصل کاشت کی گئی تھی۔

‘یو این او ڈی سی‘ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پوست کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور رواں سال پوست کاشت کرنے والے افغان کسانوں کے لیے سب سے منافع بخش برسوں میں سے ایک ہو گا۔ جاری ہونے والی رپورٹ کی مطابق افیون کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی 2021ء میں 425 ملین ڈالر تھی اور اب 2022ء میں یہ تین گنا سے بھی زیادہ ہو کر 1.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

افغانستان کے کسان اب نومبر کے شروع میں فیصلہ کریں گے کہ آیا اگلے سال کے لیے پوست کی کاشت کی جائے اور پابندی کے باوجود کتنی اگائی جائے؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے کسان ”غیر قانونی افیون کی معیشت میں پھنسے ہوئے ہیں“۔ طالبان حکومت کی جانب سے پوست کی فصل کاشت کرنے اور افیون کے کاروبار پر پابندی عائد ہے لیکن افیون کی بلند قیمتیں کسانوں کو پوست کی فصل کاشت کرنے کا خطرہ مول لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ نہ صرف افغان کسانوں بلکہ جنگی سرداروں کے لیے بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

پوست کی اسی فصل سے افیون تیار کی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں پیدا ہونے والی افیون اور ہیروئن پر تقریبا افغانستان کی ہی اجارہ داری قائم ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں افیون کی مجموعی پیداوار کا 80 سے 90 فیصد تک حصہ صرف افغانستان میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔

طالبان جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے، تو انہوں نے اس فصل کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ افغانستان پر حملے کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز نے بھی تقریبا دو دہائیوں تک پوست کی کاشت روکنے کی کوششیں کیں۔ اس دوران گندم یا زعفران جیسی متبادل فصلیں اگانے کے لیے کسانوں کو ادائیگیاں بھی کی گئیں لیکن ایسی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔

ماہرین کے مطابق اس وقت غیر ملکی افواج کی ان کوششوں کو طالبان نے ناکام بنایا کیوں کہ وہ پوست کی کاشت والے اہم علاقوں کو کنٹرول کرتے ہوئے اس کی تجارت سے کروڑوں ڈالر کماتے تھے۔ انہی ڈالروں کو غیرملکی افواج کے خلاف لڑنے اور ہتھیار خریدنے کے لیے بھی استعمال کیا۔

افغانستان میں پیدا ہونے والی افیون دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچتی ہے اور اس کی اسمگلنگ کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے راستے استعمال کیے جاتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں