سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب ڈائری اٹھا کر پی ایم ہاؤس سے نکلا تو اللہ نے وہ عزت دی جس کا تصور نہیں کیا تھا، جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی، تب بھی سوچتا تھا کہ فوج میں کسی کو توسیع نہیں ملنی چاہیے مگر حالات ایسے بنادیے گئے تھے، توسیع کیلئے جس طرح ن لیگ و دیگر نے ووٹ ڈالے اس کے بعد مجھے لگا کہ انھوں نے ن لیگ سے بھی بات چیت شروع کردی ہے، میرے خیال میں انہوں نے ن لیگ کو بھی کوئی یقین دہانی کرائی ہوگی، جنرل فیض کو ہٹایا گیا تب کلیئر ہوگیا کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا مجھے ہٹانے کا۔
عمران خان نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ملک بہت تیزی سے نیچے جارہا ہے ، مفتاح اسماعیل کہہ رہا ہے کہ اسحاق ڈار ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جارہا ہے، ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے تو اب انھوں نے کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرانا ہے، ان کو لانے والے زیادہ قصور وار ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ جب سے یہ دو خاندان آئے ہیں ملک پیچھے چلا گیا، یہ ملک کو دیوالیہ کرگئے تھے ہم ملک کو سنبھال کر اوپر لے کر آئے ، ہم ملک کو اوپر لے کر گئے تھے یہ دوبارہ نیچے لے کر آگئے، ذمہ دار وہ ہیں جنھوں نے ان چوروں کو ہم پر مسلط ہونے دیا۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ میری والدہ کہتی تھیں کہ میں بڑا ہی سیدھا ہوں ہر کسی پر بھروسہ کرلیتا ہوں، میں ساری زندگی ماں کو کہتا رہا کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے جو بھی دنیا کرتی ہے میں توکامیاب ہوجاتا ہوں، میں لوگوں پر بھروسہ کرتا ہوں ، میں اپنے بچوں کو بھی کہتا ہوں کہ دلیر آدمی کسی پر شک نہیں کرتا۔
عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ کے ساتھ گزرے ساڑھے تین سال میں پہلی بار لگا کہ بھروسہ کرنا کتنی بڑی کمزوری ہے، جو جنرل باجوہ کہتے میں اس کا بھروسہ کرلیتا تھا، میں کہتا تھا ہم دونوں ملک کیلئے ہیں، ہمارا مقصد ایک ہے ملک کو بچانا ہے، مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ کس طرح جھوٹ بولا گیا دھوکے دیے گئے، آخری دنوں میں بھی پتا تھا اور آئی بی سے رپورٹ آرہی تھی کہ گیم چل رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ آئی بی والا بیچارے کو کیا نکالیں گے وہ بھی ڈر ڈر کر کہتا تھا تحریری نہیں زبانی آکر بتاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر جنرل فیض کو ہٹایا تو اس کے بعد ان کی گیم چل پڑی تھی، میں نے جب بھی جنرل باجوہ سے پوچھا جواب آیا ہو ہی نہیں سکتا ہم تو تسلسل چاہتےہیں، میں نے پوچھا کہ ہمارے اتحادی سب کو اشارہ یہ دے رہے ہیں کہ فوج چاہتی ہے ادھر چلے جائیں، جنرل باجوہ سے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں ادھر چلے جائیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں۔
عمران خان نے بتایا کہ ہمارے اتحادی ایم کیو ایم کے لوگوں اور دیگر نے دبے دبے لفظوں میں کہا تھا، بلوچستان عوامی پارٹی تو کنٹرول میں ان کے تھی، شاہ زین تو ان کے بغیر ہلتا ہی نہیں تھا، ہم حیران تھے کہ مجھے کہہ رہے ہیں کچھ نہیں اور ادھر سے اور سنگنل مل رہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ اگر اس وقت حکومت کو ہٹایا تو معیشت کوئی نہیں سنبھال سکے گا، عدم استحکام آیا تو معیشت کوئی نہیں سنبھال سکے گا یہ چور تو بالکل نہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے شوکت ترین کو بھیجا اس کو بھی کہا گیا کہ فکر نہ کرو تسلسل رہے گا، میں نے ایک دن کہا کہ مجھے کلیئر کردیں آپ اِدھر ہیں یا اُدھر ہیں؟میں نے کہا کہ اگر آپ اِدھر نہیں ہیں تو بتادیں پھر میری اور حکمت عملی ہوگی، پوچھا گیا کیا حکمت عملی، تو میں نے کہا کہ اپنےلوگوں کے پاس جاؤں گا۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کرلیا ہے تو مجھے بتادیں، میں تو عوام کے کندھے پر آیا ہوں مجھے کسی نے ملٹری نرسری میں نہیں پالا تھا، میں واپس عوام میں چلاؤں گا، جواب آیا فکر نہ کرو ہم تسلسل چاہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں، بعد میں پتا چلا میں اکیلا نہیں تھا اور بھی بڑے تھے اپنے کولیگز بھی، جن کو لال بتی کے پیچھے لگایا تھا، ہمیں پتا ہے جو ہوا اس کے پیچھے ہینڈلرز تھے، ان کو نظر آگیا کہ لوگ ان چوروں کو نہیں مانیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ انھوں نے اس کے بعد سب سے بڑا ظلم کیا 7 ماہ ہم پر تشدد کیا، جو مجھ سے ملاقات کرتا تھا اس کے پیچھے پڑ جاتے تھے ، لوگ ڈرتے تھے ہمیں تو کرائے پر جہاز
نہیں ملتا تھا، اڈیالہ جیل والے شہبازگل کو کہتے رہے کہ ہم پر پیچھے سے دباؤ ہے، وہ تو شکر ہے میرا دوست عدنان اسد امریکا سے آیا اس کا جہاز نہ ہوتا تو سفر ہی نہیں کرسکتا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ شروع میں مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیوں طاقتور کا احتساب نہیں کرتے، وہ کہتے تھے آپ فکر نہ کریں اور ان سے ڈیل کرتے رہے ، نیب میرے کنٹرول میں نہیں تھی، نیب تو ان کے کنٹرول میں تھی، مسئلہ یہ تھا کہ یہ کرپشن کو بری چیز سمجھتے ہی نہیں تھے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم نے اپنا پیغام پہنچایا ہے، عارف علوی نے بھی یہ بات کی ہے، تحریک انصاف تو اور مضبوط ہوگئی ہے، تحریک انصاف کو آج جو مقبولیت ملی ہے کسی جماعت کو نہیں ملی، نیا سیٹ اپ آیا ہوا ہے ان کو موقع دینا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ اگر ملک ڈیفالٹ ہوجائے تو سب سے بڑا مسئلہ سکیورٹی کا آئے گا، نواز شریف اور زرداری کو جب موقع ملتا ہے باہر بھاگ جاتے ہیں، قیامت کی نشانی ہے کہ آصف زرداری کہہ رہا ہے کہ مجھے نیب کے ذریعے جیل ہوگی، دنیا میں آصف زرداری کی کرپشن پر کتابیں لکھی ہوئی ہیں، یہ ان کی خواہشیں ہیں کہ میں جیل چلا جاؤں، میں سندھ میں جاکر زرداری کو شکست دوں گا، اب تک ہم پھنسے ہوئے تھے پوری طرح مہم چلانے کا موقع نہیں ملا۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مارچ کے آخر تک الیکشن کرانے پر تیار ہے تو ہم ابھی اسمبلیاں نہیں توڑتے۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ کیا یہ چاہتے ہیں کہ 66 فیصد ملک میں الیکشن ہوجائے اور پھر اس کے بعد عام انتخابات ہوں ؟ عقل تو یہ کہتی ہے کہ 66 فیصد ملک میں الیکشن ہو رہا ہے تو عام انتخابات کرا دیں، اگر یہ چاہتے ہیں توہم ان سے مذاکرات کرسکتے ہیں کہ کس تاریخ کو الیکشن ہوسکتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ بجٹ کے بعد الیکشن کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، یہ ملک کو نیچے لے کر جارہے ہیں، اگر یہ مارچ کے آخر تک الیکشن پر تیار ہیں تو ہم اسمبلیاں توڑنے سے رک جاتے ہیں، نہیں تو ہمیں فوری طور پر کے پی اور پنجاب میں اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کرانا ہے، ہم مارچ سے آگے نہیں جانے لگے، اگر انہوں نے نہیں مانا تواس ماہ اسمبلیاں تحلیل کردینی ہیں، فیصلہ کرنے میں ان کو کتنی دیر لگنی ہے؟ یہ ہاں کریں گے یا نہ ، ہمارا تو فیصلہ ہوگیا ہے۔
عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ گیم اب زرداری کے ہاتھ میں نہیں، پرویز الہیٰ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، پرویز الہیٰ نے پورا اختیار دیا ہے کہ جب چاہوں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پرویز الہیٰ نے دستخط شدہ سمری دی ہے؟ تو عمران خان نے کہا کہ بس سمجھ جائیں ناں، پرویز الہیٰ نے اختیار دے دیا ہے ، چار پانچ دنوں میں کے پی اور پنجاب میں اپنے لوگوں سے مل رہا ہوں، دیکھتے ہیں کہ وہاں سے کیا رسپانس آتا ہے۔