سال2022 بلوچ سرمچاروں کے پاکستانی فورسز پر حملوں نے ان کو ذہنی مریض بنا دیا۔
سال2022 میں بلوچ سرمچاروں نے پاکستانی فوج پر اپنے حملوں سے معاشی بدحال پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا،پاکستانی فوجی اہلکاروں، ان کی تنصیبات اور ان کے سہولت کار (ڈیتھ اسکواڈ) کے کارندے بھی بلوچ سرمچاروں کے نشانے پر رہے۔ویسے تو تمام مزاحمتی تنظیموں نے دشمن کو شدید نقصان پہنچایا مگر خاص کر بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے حملوں نے پاکستانی فورسز کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ نیشنلسٹ آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈ نے سال 2022 میں قابض ریاستی فورسز پر حملوں کی سالانہ رپورٹ جاری کیے،جن کے مطابق قابض پاکستانی فورسز پرکل 455 حملے کیے گئے، جن میں 636 سے زائد اہلکار ہلاک اور 279 سے زائد زخمی ہوئے۔
اندرونی طور پر تباہ حال پاکستان اور عالمی منڈی میں تبائی کے نہج پر پہنچنے والے اس ملک کی فوج پر بلوچ سرمچاروں کے سال بھر میں ساڑھے چار سو سے زائد حملوں اور چھ سو سے زائد فوجی اہلکاروں کی ہلاکت نے اس کی فوج کے مورال کو نیست و نابود کر دیا۔
کئی سال پہلے بلوچ رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا بی بی سی اردو کو دیئے گئے انٹرویو کے الفاظ آج یاد آ رہے ہیں۔ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور ہاتھی کی مانند ہے جس پر بلوچ رہنماء نے کہا تھا کہ(الفاظ کا متن کچھ یوں ہے) ہم روز ایک سوئی چھبوئیں گے، ایک نہ ایک دن تو اسے ختم ہونا ہو گا،۔ آج وہی صورت حال اس ہاتھی نما پاکستان کی ہمارے سامنے ہے۔
سال2022 کے چند بڑے حملے جس میں نوشکی و پنجگور کیمپ پر فدائی حملوں سمیت،سبدان دشت میں پاکستانی پوسٹ پر قبضہ تمام اہلکاروں کی ہلاکت کے ساتھ ان کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان کو قبضہ میں لینا بھی شامل ہے۔لیکن تاریخ اس سال کو شہید خاتون سرمچار کے نام سے بھی یاد رکھے گی۔ جی ہاں شاری بلوچ وہ نوجوان ماں جس نے اپنے لخت جگروں کو اپنی مادر وطن کے لیے الوداع کہہ کر جام شہادت نوش کیا۔شہادت بھی ایسی ویسی نہیں کہ بندوق لیے دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہونا،بلکہ اس کے لیے بقول مجید بریگئیڈ کے اس کی تیاری قابل دید تھی ایک ماں جس نے اپنے بطن سے جنمے بچوں کو الوداع کہا اور پہلی بلوچ فدائی خاتون بن گئیں،وہ ننھے بچے اس وقت شاید کچھ نہ سمجھ سکے مگر آنے والے کچھ سالوں میں وہ اپنی ماں کی قربانی کی تاریخ پر فخر کریں گے اور دشمن کو للکاریں گے۔
سال2022 میں خاص کر بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی نے پاکستانی فوج پر کاری ضربیں لگائیں،فوجی کیمپوں،چوکیوں،مورچوں،قافلوں پر حملوں کے ساتھ دشمن فوج کے اہلکاروں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ایک عام فوجی اہلکار آج مقبوضہ بلوچستان میں اپنی پوسٹنگ کے ساتھ ہی نیم سائیکو ہو جاتا ہے کہ جانے کب اور کس سمت سے گولی آ کر سر پر لگے یا قافلے پر حملہ ہو یا کون سی گاڑی بارودی سرنگ کی زد میں آئے،جب تک فوجی اہلکار اپنے کیمپ نہیں پہنچتے وہ موت کے خوف سے ہر پل مر رہے ہوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں عظیم سرمچاروں کو دیکھیں جو دشمن کو سامنے جا کر مارنے کے بعد انقلاب کے نعرئے لگاتے ہوئے ان کے ہتھیار ضبط کرتے ہیں،یہ فرق ہے کرائے کے سپاہی اور قوم دوستی میں۔آج بلو چ سرمچار اپنی قومی شناخت و آزاد وطن کے لیے مقبوضہ بلوچستان کے پہاڑوں سمیت گلی کوچوں میں شعور سے لیس انقلابی بندوق سے دشمن کو پسپا کر کے بلوچوں کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے نکلے ہیں اور انہوں نے دشمن کو شکست سے دوچار کر دیا ہے جو یقینا بلوچ کے تابناک مستقبل کا ضامن ہے۔
آج بلوچ جنگ میں تیزی نے نہ صرف دشمن کو اس نہج پر پہنچایا کہ وہ ہتھیار پھینک دے بلکہ معاشی بدحال ملک کی فوج کے بجٹ کا بھی سوال ہے،کچھ اندرون خانہ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ کم کرنے کے ساتھ فوج کی تعداد بھی کم کرئے یہ شرط آئی ایم ایف نے سری لنکا کے لیے بھی رکھا تھا اور مجبورا ان کو ملک بچانے کے لیے یہ اقدام اٹھانا پڑا ہے،مگر شنید میں ہے کہ اگر
پاکستان اپنی فوج کی تعداد ایک لاکھ تک کم بھی کر دئے تو ان کی ادائیگی اور پنشن کے لیے بجٹ میں اتنے پیسے نہیں ہیں، البتہ اسحاق ڈار نے یہ عندیہ ان کو دیا ہے کہ فی الحال فوج کی تعداد مزید نہیں بڑھائی جائے گی۔ یقینا پاکستانی فوجی بجٹ میں ان کے فوجی افسران کی بڑے کرپشن شامل ہیں مگر یہ بلوچ سرمچاروں کی محنت اور دشمن پر پے در پے حملوں کا نتیجہ ہے کہ ایک ایٹمی ملک کے دفاعی بجٹ کو انہوں نے اپنے
قوت بازو سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اسی سال بلوچ وطن کے دفاع میں 79 بلوچ سرمچاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کی تاکہ بلوچ قوم کو باعزت زندگی اور آزاد وطن حاصل ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستین بلوچ ، سنگر میڈیا کے ایڈیٹر چیف ہیں اور وہ بلوچستان کے علاوہ اس خطے پر قتا وقتا لکھتے رہتے ہیں۔