ماحولیاتی ایمرجنسی: امسال کاربن اخراج 40 ارب ٹن کی ریکارڈ سطح پر پہنچ جائے گا

0
32

سائنسدانوں کے مطابق فاسل فیول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج، جو کہ موسمیاتی تبدیلی کا بنیادی محرک ہے، 2022ء میں ایک فیصد بڑھ کر اب تک کی بلند ترین سطح پر تک پہنچنے کے راستے پر ہے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق جمعہ کو اقوام متحدہ کے ’COP27‘ موسمیاتی سربراہی اجلاس کے دوران پیش کی گئی عالمی کارکن بجٹ رپورٹ نے حکومتوں، کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کی جانب سے مستقبل کے سالوں میں کرۂ ارض کی گرمی کے اخراج کو کم کرنے کیلئے کئے گئے وعدوں اور ان کے اقدامات کے درمیان تفاوت کو واضح کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تیل سے کاربن کا اخراج پچھلے سال کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ بڑھے گا، جبکہ کوئلے سے اخراج ایک نیا ریکارڈ بنائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کوئلے سے اخراج 2014ء میں عروج پر تھا۔

100 سے زائد سائنسدانوں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگلات کی کٹائی سمیت تمام ذرائع سے عالمی کاربن کا آخراج 40.5 ارب ٹن تک پہنچ جائے گا، جو 2019ء میں ریکارڈ سطح سے بالکل نیچے ہے۔ اس اخراج کا 90 فیصد کے قریب فوسل فیول جلانے کا نتیجہ ہے۔

مطالعہ کے شریک مصنف پیٹرز نے کہا کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اضافہ بنیادی رجحانات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور سخت تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2015ء میں جب پیرس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، یہ اخراج اس وقت سے 5 فیصد زیادہ ہے۔

نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اخراج کو اتنی تیزی سے کم کرنا مشکل ہو گا کہ پیرس کے گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ پر صنعتی سطح سے اپر کیپ کرنے کے ہدف کو پورا کیا جا سکے۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ اس حد سے آگے حرارت کی وجہ سے ماحولیاتی نظام میں خطرناک ٹپنگ پوائنٹس کو متحرک کرنے کا خطرہ ہے۔

گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور سمندری طوفانوں کے ساتھ اب تک 1.2 ڈگری سنٹی گریڈ حرارت نے پہلے ہی زیادہ شدید موسم کو جنم دیا ہے، جس نے سمندروں کے بڑھنے سے مزید تباہ کن بنا دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال اخراج میں امریکہ میں 1.5 فیصد اور بھارت میں بالترتیب 6 فیصد اضافہ ہو گا، جو کہ دنیا کے دوسرے اور تیسرے سب سے بڑے اخراج کرنے والے ممالک ہیں۔

چین کی صفر کورونا حکمت عملی کے نتیجے میں دنیا کے سب سے بڑے آلودگی پھیلانے والے چین سے کاربن کی پیداوار میں 0.9 فیصد کمی کا امکان ہے۔ یورپی اخراج میں بھی قدرے کمی آئی ہے۔

پیرس معاہدے کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے عالمیا خراج میں 45 فیصد کمی ہونی چاہیے اور وسط صدی تک اسے خالص صفر پر لایا جانا چاہیے۔

خالص صفر دنیا کے راستہ پر چلنے کیلئے اخراج کو آگلے آٹھ سالوں میں 7 فیصد سالانہ کم کرنا پڑے گا۔ یہاں تک کہ 2020ء میں جب دنیا کا بیشتر حصہ وبائی مرض کی وجہ سے بند تھا، اخراج میں 6 فیصد کمی ہوئی تھی۔

یونیورسٹی کالج لندن میں موسمیات کے پروفیسر مارک مسلن نے اے ایف پی کو بتایا کہ”2022ء کا عالمی کاربن بجٹ انتہائی افسردہ ہے۔ عالمی سطح پر طے شدہ 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ گلوبل وارمنگ کے ہدف سے نیچے رہنے کا کوئی امکان حاصل کرنے کیلئے ہمیں سالانہ اخراج میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی ضرورت ہے۔ جس کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے۔“

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں