ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں اسمارٹ فونز کی اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لیے ریاستی ملکیتی اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ڈربس کے نفاذ کے لیے تمام قانونی رکاوٹیں دور کرلی ہیں۔
پی ٹی اے نے اعلان کیا ہے کہ یکم ستمبر کے بعد غیر رجسٹرڈ ڈیوائسز کو ٹیکس ادا کر کے اور معیارات کی تعمیل کرتے ہوئے رجسٹریشن کے عمل سے گزرنا ہوگا۔
پی ٹی اے کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ڈربس متعارف کرادیا ہے، میڈیا کے ذریعے آگاہی بشمول براہ راست ایس ایم ایس کے ذریعے صارفین کو ان کی ڈیوائس کی حیثیت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے‘۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ’تمام دستیاب آلات کو ان کے نمبروں کے ساتھ منسلک اور ڈیوائسز کو رجسٹرڈ کیا جائے گا، تمام موبائل ڈیوائسز کا پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹر ہونا ضروری ہے، ایسا نہ ہونے کی صورت میں مقامی سمز کو غیر فعال کر دیا جائے گا اور غیر رجسٹرڈ ڈیوائسز کام کرنا بند کر دیں گی۔‘
پی ٹی اے اور ایف بی آر نے جون 2018 میں ڈربس کا آغاز کیا تھا اور ایف بی آر نے افراد یا غیر قانونی راستوں کے ذریعے ملک میں لائے گئے غیر رجسٹرڈ موبائل فون سیٹوں پر ٹیکس وصول کرنا شروع کیا تھا۔
تاہم ایف بی آر کے دائرہ اختیار کے معاملے کی وجہ سے گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ڈربس لانچ نہیں کیا جاسکا تھا جس کے نتیجے میں ایس سی او کی جانب سے جاری کردہ سمز کا استعمال کرتے ہوئے غیر رجسٹرڈ فونز کا استعمال ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر عام ہے۔
گلگت میں موبائل فون کے کاروبار سے منسلک منظر حسین نے کہا کہ بغیر ڈیوٹی والے فون یا تو چین سے آتے ہیں یا خود پاکستان سے بھی ان کا منافع زیادہ ہوتا ہے۔
منظر حسین نے مزید کہا کہ چونکہ ایس سی او بنیادی طور پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کام کرتی ہے اس لیے بغیر ڈیوٹی والے فون ایس سی او پر فعال ہوتے ہیں اور ٹیکس کی بچت کی وجہ سے صارفین کی ایک بڑی تعداد ایسے فون حاصل کرتی اور ایس سی او نمبر بھی حاصل کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس سی او نمبرز پاکستان میں بھی کام کرتے ہیں کیونکہ ایس سی او کا یوفون کے ساتھ نیٹ ورک شیئرنگ کا بزنس معاہدہ ہے۔
اس صورتحال میں حالیہ برسوں کے دوران گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں غیر رجسٹرڈ فونز کی فروخت عروج پر پہنچ گئی تھی اور پاکستان موبائل فون مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی ایم پی ایم اے) نے سابق وزیر آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام سید امین الحق سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اس تضاد کو دور کرنے کے لیے وزارت آئی ٹی نے وفاقی کابینہ سے رابطہ کیا اور ایس سی او کا ڈربس سسٹم میں انضمام حاصل کیا۔
موبائل فون مینوفیکچررز نے اندازہ لگایا ہے کہ اس وقت ان علاقوں میں 10 لاکھ سے زیادہ اسمگل شدہ موبائل فون استعمال ہو رہے ہیں۔
پی ایم پی ایم اے کے وائس چیئرمین مظفر پراچا نے کہا کہ ’مقامی موبائل ڈیوائس مینوفیکچرنگ کے تحفظ اور موبائل سیٹوں کی درآمد اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے ڈربس سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ڈربس کے ساتھ مقامی صنعت سال کے آخر تک اس مارکیٹ کا کم از کم 20 فیصد حصہ حاصل کرلے گی۔