عوامی ورکرز پارٹی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء منظور پشتین کی گرفتاری اور ان کے ساتھ نارروا سلوک کی شدید مذمت کی ہے، انہیں 2 دن تک اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں کرنے دیا گیا اور پھر اسلام آباد کی ایک انسدادِ دہشت گردی عدالت میں بھاری سیکیورٹی کے ساتھ پیش کیا گیا، جو بنیادی انسانی وقار کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ ایسے جابرانہ ہتھکنڈے نہ صرف منظور پشتین کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ان کی عدم تشدد کی سیاسی سوچ کے پیروکاروں کے لیے اشتعال انگیز عمل ہے اور پاکستان کے کمزور وفاق کی بنیادوں کو مزید کمزور کرتے ہیں۔
پارٹی کے صدر اختر حسین اور جنرل سیکرٹری بخشل تھلہو نے بتایا کہ منظور پشتین کو پولیس نے چمن سے گرفتار کیا تھا جب وہ افغانستان کی سرحد پر جاری پر امن دھرنے میں شرکت کر رہے تھے۔ سرکاری بیان کے برعکس، جب ان کی گاڑی چمن سے تربت کی طرف روانہ ہوئی تو پہلے ان کو دھمکایا گیا پھر ان پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ پشتین تربت میں تین بلوچ افراد کے جعلی مقابلے میں قتل کے خلاف جاری دھرنے میں یکجہتی کا اظہار کرنے جا رہے تھے۔
پارٹی کا ماننا ہے کہ منظور کے پاس پاکستان میں کہیں بھی سفر کرنے کا آئینی حق ہے اور چمن میں درج کیے گئے جعلی مقدمے میں ان پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت اس بات کی بھی مذمت کرتی ہے کہ جس طرح پشتین کو ڈی آئی خان پولیس اور پھر اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا گیا اور انہیں 48 گھنٹوں تک اپنے وکلاء یا قریبی رشتہ داروں میں سے کسی رابطے سے روکا گیا۔ یہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی نشاندہی کرتا ہے اور نگران حکومت کے اس دعوے کی ہنسی اڑاتا ہے کہ وہ الیکشن کے انعقاد کے لیے ایک پرامن ماحول بنا رہی ہے۔
اس کی بجائے، منظور کے ساتھ ساتھ دیگر پر امن اور با ضمیر ترقی پسند افراد کے ساتھ ایسے غیر انسانی سلوک سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستانی ریاست تیزی سے فوج زدہ ہوتی جا رہی ہے اور انصاف کا قبرستان بنتی جارہی ہے۔
پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ منظور پشتین کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے خلاف بنائے گئے سارے جھوٹے مقدمات فوری طور پر ختم کیئے جائیں۔ پارٹی پورے ملک میں مزدور طبقے، مظلوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لئے جاری تمام پر امن احتجاجات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔