میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور کے شہری نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کی وساطت سے درخواست دائر کردی، درخواست میں وزیراعظم پاکستان، وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ایک نوٹیفکیشن میں خفیہ ایجنسی کو لوگوں کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی ہے، پی ٹی اے ایکٹ کے جس سیکشن کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے ابھی تک رولز نہیں بنے ہیں، آئین پاکستان شہریوں کو پرائیویسی، آزادی اظہار رائے فراہم کرتا ہے۔
شہری کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق بھی لوگوں کے فون ٹیپ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، استدعا کی کہ عدالت حکومت کا خفیہ ایجنسی کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک مذکورہ نوٹیفکیشن کی کارروائی کو معطل کرے۔
شہری نے درخواست میں کہا کہ حکومت کو ہدایت جاری کی جائے کہ پی ٹی اے ایکٹ کے سیکشن 56 کے رولز بنائے۔
یاد رہے کہ 9 جولائی کو وفاقی حکومت نے آئی ایس آئی کے نامزد افسر کو قومی سلامتی کے مفاد کے پیش نظر شہریوں کی فون کالز یا پیغامات کو انٹرسیپٹ اور ٹریس کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
حساس ادارے کو ٹیلی فون کالز یا میسج میں مداخلت اور سراغ لگانے کا اختیار مل گیا، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) ایکٹ 196 کے سیکشن 54 کے تحت اجازت دی گئی۔
اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے حساس ادارے کے نامزد افسر کو کال ٹریس کرنےکا اختیار دینے کی منظوری دی، کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے منظوری دی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس ضمن میں نوٹی فیکشن بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹی فیکشن کے مطابق ملکی قومی سلامتی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ آئی ایس آئی جس افسر کو شہریوں کی فون کالز اور پیغامات سننے اور ریکارڈ کرنے کے لیے نامزد کرے گی وہ گریڈ 18 سے کم نہیں ہوگا۔