خوف کو یقین میں بدلنا:آرمی گڈ وِل اسکولز کا مشن — تعلیم اور بااختیاری کی جانب

0
1

سید ذیشان
جموں و کشمیر میں امن کی تعلیم کا مشن صرف کلاس رومز اور کتابوں تک محدود نہیں بلکہ یہ اعتماد، امید اور امن کو واپس لانے کا مشن ہے، یہ ان بچوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم ہے جو ہم آہنگی، مواقع اور ترقی سے بھرپور زندگی کا خواب دیکھتے ہیں۔ بھارتی فوج نے 1998 میں ”آپریشن صدبھاونہ“ یعنی ”نیک خواہشات“ کے تحت آرمی گڈ ول اسکولز قائم کیے تاکہ ان علاقوں میں معیار ی تعلیم دی جا سکے جہاں پہلے خوف اور تشدد کا سایہ رہا تھا۔ ان اسکولوں نے پہاڑیوں اور سرحدی علاقوں کے ہزاروں بچوں کے لیے علم، خوشی اور خوداعتمادی کے دروازے کھول دیے۔ آج جموں، کشمیر اور لداخ میں 46 آرمی گڈ ول اسکولز کام کر رہے ہیں جہاں تقریباً 14 ہزار طلباءتعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ایک ہزار سے زائد مقامی اساتذہ و عملے کو روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔ بھارتی فوج تقریباً 1900 سرکاری اسکولوں کو بھی سہولیات فراہم کر رہی ہے جن میں کمرے، فرنیچر، لائبریریاں اور دیگر تعلیمی وسائل شامل ہیں۔ ہر سال 1500 سے زیادہ غریب مگر مستحق طلبائ کو اسکالرشپ دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں، اور اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ اس عظیم پروگرام سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ آرمی گڈ ول اسکول صرف تعلیم تک محدود نہیں بلکہ یہ نظم و ضبط، کھیل، تہذیب اور خوداعتمادی کی تربیت بھی دیتے ہیں۔

ان اسکولوں میں کمپیوٹر اور سائنس لیبز، لائبریریاں اور کھیل کے میدان موجود ہیں جہاں بچے مباحثوں، ثقافتی تقریبات اور قومی سطح کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان اسکولوں کے بہت سے طلباء نے سو فیصد کامیابی کے ساتھ بورڈ امتحانات پاس کیے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت اور رہنمائی سے دور دراز دیہاتوں کے بچے بھی چمک سکتے ہیں۔ ”کشمیر سپر 50“ انجینئرنگ کے لیے اور ”کشمیر سپر 30“ میڈیکل کے لیے ایسے پروگرام ہیں جنہوں نے غریب طلبائ کو ملک بھر کے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کورسز میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیابی دلائی۔ ان کامیابیوں نے ثابت کیا کہ آرمی گڈ ول اسکولز جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے لیے حقیقی مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ادارے سماج کی تعمیر نو میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ یہاں دیانت، نظم و ضبط، مہربانی اور خدمت جیسے اخلاقی اصول سکھائے جاتے ہیں۔ ان اسکولوں کے فارغ التحصیل طلبائ نے افواج، طب، تدریس، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا کر اپنے خاندانوں اور گاو¿ں کا نام روشن کیا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیج کر مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فوج نہ صرف بہترین تعلیم دے رہی ہے بلکہ محفوظ ماحول بھی فراہم کر رہی ہے۔ پاہلگام میں آرمی گڈ ول پبلک اسکول کے 15 طلباءنے اپنی پرنسپل محترمہ ایلا اپادھیائے کی قیادت میں 17 کلومیٹر طویل ”لدرواٹ ٹریل رن 2025“ میراتھون میں حصہ لیا جسے جواہر انسٹی ٹیوٹ آف ماو¿نٹینئرنگ اینڈ ونٹر اسپورٹس نے جموں و کشمیر ٹورازم اور سول انتظامیہ کے اشتراک سے منعقد کیا تھا۔ طلباءنے ہمت، ٹیم ورک اور جسمانی فٹنس کا شاندار مظاہرہ کیا۔ آرمی گڈ ول اسکول وین کے دسویں جماعت کے طالب علم سہیل خان نے جموں میں ہونے والے بین الریاستی ایتھلیٹکس مقابلے میں طلائی تمغہ جیت کر اپنے اسکول کا نام روشن کیا اور اب وہ قومی سطح پر جموں و کشمیر کی نمائندگی کریں گے۔ کپواڑہ کی عاشوتوش آرمی گڈ ول اسکول کی طالبہ فائکہ فریحین نے ”ڈرگ ڈیٹیکشن ڈیوائس فار سیفر کمیونٹیز“ کے سائنسی ماڈل کے ذریعے نیشنل سائنس ماڈل ایگزیبیشن کے لیے ریاست کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔ بانڈی پورہ کے طلبائ نے ضلعی بیڈمنٹن چیمپئن شپ 2025 میں پانچ تمغے جیتے جن میں چار طلائی اور ایک چاندی کا تمغہ شامل تھا جبکہ فرحان فیروز نے سری نگر میں منعقدہ انٹر ڈسٹرکٹ جوڈو مقابلے میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ اسی طرح لولاب کے آرمی گڈ ول اسکول چندیگام نے ”انو فیسٹ 2025“ میں پہلا مقام اور ”راک اسٹار اچیور ایوارڈ“ اپنے منصوبے ”واٹر اینڈ ٹریش مینجمنٹ“ پر حاصل کیا جس کی رہنمائی پرنسپل جاوید احمد ڈار نے کی۔ یہ تمام کامیابیاں ظاہر کرتی ہیں کہ آرمی گڈ ول اسکولز نہ صرف تعلیم بلکہ تخلیقی سوچ اور عملی علم کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ یہ ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار اور کمیونٹی ترقی کے مراکز بھی ہوں۔ ان میں مقامی اساتذہ کو ملازمت دی جاتی ہے، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں اور خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے۔

والدین کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے بچے محفوظ اور باوقار ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں لفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے شپیان کے آرمی گڈ ول اسکول بالاپور میں ایک تقریب کے دوران ان اسکولوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب کچھ لوگ دوسروں کو اپنے بچوں کو فوجی اسکولوں میں بھیجنے سے روکتے تھے مگر آج یہی اسکول امید کی علامت بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے بہادر سپاہی سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں تو وہ ہمارے بچوں کو تعلیم کیوں نہیں دے سکتے۔ انہوں نے فوج کو قوم کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے ذریعے سماج کی تشکیل نو کے لیے سراہا۔ سرحدی علاقوں کے نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم کے طور پر ”ایس آف اسپیڈز ڈویڑن“ نے ”آپریشن صدبھاونہ“ کے تحت ”سپر 30 اینڈ بیسٹ فائیو“ پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد سرحدی علاقوں کے باصلاحیت طلبائ کو سینک اسکولز، ملٹری اسکولز اور راشٹریہ انڈین ملٹری کالج دہرادون جیسے ممتاز اداروں میں داخلے کے لیے تربیت دینا ہے۔ پہلے آن لائن مرحلے کی شاندار کامیابی کے بعد دوسرا مرحلہ آف لائن راجوری کے آرمی گڈ ول پبلک اسکول میں شروع کیا گیا جہاں 27 ہونہار طلبائ کو ایک ماہ کی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ علم، نظم و ضبط اور خوداعتمادی میں مزید نکھار پیدا کر سکیں۔ یہ اقدام نوجوان امنگوں کو حقیقت میں بدلنے، قیادت کے اوصاف پیدا کرنے اور قومی سطح کے اداروں میں کامیابی کے لیے تیار کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ بھارتی فوج کی جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے لیے غیر متزلزل وابستگی کی علامت ہے جو ان میں اعتماد، حوصلہ اور کامیابی کی جستجو پیدا کر رہی ہے۔ درحقیقت بھارتی فوج اپنی ذمہ داریوں سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، وہ صرف سرحدوں کی محافظ نہیں بلکہ ہزاروں بچوں کے مستقبل کی معمار بھی بن چکی ہے۔ آرمی گڈ ول اسکولز ایک نئے جموں و کشمیر کی تعمیر میں مصروف ہیں جہاں تعلیم اور امن ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ ادارے خوف کو یقین اور مایوسی کو خواب میں بدل رہے ہیں۔ اب جبکہ جموں و کشمیر امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو تحصیل حویلی پونچھ میں ایک نیا آرمی گڈ ول اسکول قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

یہ اسکول ”آپریشن سندور“ کے شہیدوں کے نام وقف ہونا چاہیے جنہوں نے قوم کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کیں۔ آپریشن سندور جموں و کشمیر کی تاریخ کا وہ فخر کا لمحہ تھا جب پونچھ کے جوانوں اور عوام نے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر مادرِ وطن کا دفاع کیا۔ ان کے نام پر اسکول تعمیر کرنا ان کی بہادری اور قربانی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہوگا۔ یہ اسکول صرف ایک عمارت نہیں بلکہ اتحاد، جرات اور احترام کی علامت ہوگا۔ اس میں جدید تعلیم، ڈیجیٹل کلاس رومز، سائنسی تجربہ گاہیں، لائبریریاں اور کھیل کے میدان ہوں گے تاکہ حویلی کے بچوں کو وہی مواقع میسر آئیں جو یونین ٹیریٹری کے دوسرے حصوں کے بچوں کو حاصل ہیں۔ یہ اسکول ہر بچے کو یاد دلائے گا کہ آج جو آزادی اور امن میسر ہے وہ ان بہادروں کی قربانیوں کی بدولت ہے جو ہم سے پہلے گزر گئے۔ ایسا ادارہ فوج اور عوام کے درمیان تعلق کو مزید مضبوط کرے گا اور ”آپریشن سندور“ کی اس روح کو زندہ رکھے گا جس میں سپاہی اور عوام مل کر بھارت کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ یہ اسکول طلبائ کو وطن سے محبت، باہمی احترام اور روشن مستقبل کے لیے محنت کا سبق دے گا۔ آرمی گڈ ول اسکولز نے ثابت کیا ہے کہ تعلیم ان معاشروں کو بھی شفا دے سکتی ہے جو تنازعات سے زخمی ہوئے ہوں۔ کپواڑہ کی برفیلی چوٹیوں سے لے کر اننت ناگ کی سبز وادیوں، جموں کے میدانوں سے راجوری اور پونچھ کی سرحدوں تک، ان اسکولوں نے وہاں روشنی پھیلائی جہاں کبھی اندھیرا تھا۔ انہوں نے دکھایا کہ جب فوج محبت سے پڑھاتی ہے اور عوام اعتماد کے ساتھ جواب دیتے ہیں تو معجزے ہوتے ہیں۔

ان اسکولوں کی کہانی ایک بدلتے ہوئے جموں و کشمیر کی کہانی ہے، نوجوانوں کے خوابوں، اساتذہ کی لگن اور ان سپاہیوں کی جنہوں نے سرحدوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے مستقبل کی بھی حفاظت کی۔ ہر کامیابی، خواہ وہ تعلیم میں ہو، سائنس یا کھیل میں، اس بات کا ثبوت ہے کہ علم، تشدد سے زیادہ طاقتور ہے اور تعلیم ہی امن کی اصل کنجی ہے۔ آرمی گڈ ول اسکولز محض تعلیمی ادارے نہیں بلکہ امید، امن اور اصلاح کی علامت ہیں۔ بھارتی فوج نے ان کے ذریعے قوم کو سب سے بڑا تحفہ دیا ہے — تعلیم، جو ذہنوں کو بناتی، دلوں کو جوڑتی اور وطن کو مضبوط کرتی ہے۔ اب وقت ہے کہ اس مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ تحصیل حویلی پونچھ میں آپریشن سندور کے ہیروز کے نام پر آرمی گڈ ول اسکول تعمیر کرنا ان جوانوں اور عوام کے لیے حقیقی خراجِ تحسین ہوگا جنہوں نے ایک ساتھ مل کر بھارت کی خاطر قربانیاں دیں۔ یہ یاد دلائے گا کہ اصل فتح صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ ان کلاس رومز میں بھی حاصل ہوتی ہے جہاں کمسن ذہنوں کو جرات، امن اور اتحاد کے سبق سکھائے جاتے ہیں۔ آرمی گڈ ول اسکولز نے ہزاروں زندگیاں بدل دی ہیں اور مستقبل میں بھی محبت، امن اور دوستی کے پل تعمیر کرتے رہیں گے کیونکہ تعلیم وہ روشنی ہے جو کبھی مدھم نہیں پڑتی، چاہے وہ جموں و کشمیر کے بلند ترین پہاڑ ہی کیوں نہ ہوں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں