طارق جنجو عہ
کشمیر، جسے بجا طور پر “زمین پر جنت” کہا جاتا ہے، صرف اپنی دلکش قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے ہی مشہور نہیں بلکہ اپنی صدیوں پرانی ثقافتی ہم آہنگی، بقائے باہمی، اور مشترکہ روایات کے باعث بھی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس خطے کے روایتی تہوار نہ صرف مذہبی عقائد کا مظہر ہیں بلکہ وہ کشمیر کے متنوع سماجی ڈھانچے کو جوڑنے والے رشتوں کا استعارہ بھی ہیں۔ یہ تہوار صدیوں سے مختلف مذاہب، برادریوں اور ثقافتوں کے درمیان بھائی چارے، محبت اور یکجہتی کو فروغ دیتے آ رہے ہیں۔ کشمیر کے تہوار مذہبی حدود سے بالاتر ہو کر اجتماعی خوشی، شکرگزاری اور انسانیت کے جذبے کی علامت ہیں، جو کشمیری معاشرے کے سماجی تانے بانے کو مضبوط بناتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں ہیراتھ ہے، جو کشمیری پنڈت برادری کے لیے مہا شیو راتری کے طور پر منایا جاتا ہے، اور بھگوان شیو و دیوی پاروتی کی الہی شادی کی یادگار ہے۔ یہ تہوار مذہبی معنویت سے نکل کر ایک ثقافتی جشن بن چکا ہے جس میں مسلمان پڑوسی بھی شریک ہوتے ہیں، مبارکباد دیتے ہیں اور خوشیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ہیراتھ کی رسومات کے ساتھ “سلام” کا دن بھی آتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر نیک خواہشات پیش کرتے ہیں، جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح نوروز کا تہوار کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں دونوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے، جو نئی شروعات اور بہار کی آمد کا پیغام دیتا ہے۔ فارسی تہذیب سے متاثر یہ جشن روایتی پکوانوں، موسیقی اور شاعری کی محفلوں سے مزین ہوتا ہے، جو کشمیر کی جامع ثقافت کا خوبصورت عکس پیش کرتا ہے۔ وادی میں عید الفطر اور عید الاضحی بھی بے حد جوش و خروش سے منائی جاتی ہیں، جن میں عبادت، خیرات، بھائی چارے اور سخاوت کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ عید کے دن لوگ نئے کپڑے پہنتے ہیں،
نماز ادا کرتے ہیں، مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر ملاقات کرتے ہیں، جبکہ عید الاضحی قربانی، ایثار اور مساوات کی علامت ہے۔ ان اسلامی تہواروں میں غیر مسلم برادری کی شرکت کشمیری معاشرے کی روایتی رواداری کی عکاس ہے۔ کشمیر میں صوفیائ کرام کے مزاروں پر منائے جانے والے عرس جیسے روحانی میلوں نے بھی لوگوں کو محبت و بھائی چارے کے بندھن میں باندھا ہے۔ شیخ نورالدین نورانی، لال دید، بابا ریشی اور مخدوم صاحب جیسے بزرگوں کے عرس پر مختلف مذاہب کے عقیدت مند جمع ہوتے ہیں، عبادت کرتے ہیں، قوالیاں سنتے ہیں اور لنگر میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ اجتماعات کشمیر کی رشی صوفی روایت کی زندہ مثال ہیں جو محبت، امن اور انسان دوستی پر زور دیتی ہے۔ اسی طرح کھیر بھوانی میلہ گاندربل کے تلمولہ میں منعقد ہوتا ہے جو کشمیری پنڈتوں کے لیے نہایت مقدس ہے، لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ مقامی مسلمان اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، انتظامات میں مدد کرتے ہیں اور زائرین کی میزبانی کرتے ہیں۔ یہ مناظر کشمیر کی اس قدیم روایت کی عکاسی کرتے ہیں جہاں مذہب نہیں بلکہ انسانیت اصل بندھن ہے۔ کشمیر کے کچھ حصوں میں منایا جانے والا بیساکھی بھی اتحاد اور محنت کی علامت ہے، جہاں سکھ برادری کے ساتھ دیگر طبقات بھی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں، دریاو¿ں میں مقدس غسل، بھنگڑا و گِڈا رقص، اور کھانے کی دعوتوں سے ماحول خوشگوار بن جاتا ہے۔ جدید دور میں منعقد ہونے والے ٹیولپ فیسٹیول اور اسپرنگ بلاسِم فیسٹیول بھی ثقافتی میل جول کا ذریعہ بن گئے ہیں، جو مقامی فن، موسیقی، دستکاری اور کھانوں کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف کشمیر کی ثقافتی شناخت مضبوط ہو رہی ہے بلکہ مقامی سیاحت اور معیشت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔
اس کے علاوہ، پھر سال (کشمیری نیا سال)، عید میلاد النبی?، اور ہرود (فصل کٹائی کا تہوار) جیسے مواقع انسانی رشتوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے احساس کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان تہواروں میں موسیقی، لوک کہانیاں اور رقص کی محفلیں محض تفریح نہیں بلکہ ثقافتی تسلسل کی علامت ہیں، جو نئی نسلوں کو اپنی جڑوں سے جوڑے رکھتی ہیں۔ کشمیر کے یہ تمام تہوار نہ صرف خوشی کے مواقع ہیں بلکہ وہ مکالمے، مفاہمت اور اجتماعی شفا کے ذرائع بھی ہیں، خصوصاً ایسے وقتوں میں جب معاشرہ چیلنجوں یا تناو¿ سے دوچار ہو۔ یہ تہوار لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کی اصل طاقت اتحاد، رواداری اور مشترکہ وراثت میں پوشیدہ ہے۔ ان مواقع پر مختلف مذاہب و طبقات کے لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر شرکت کرتے ہیں، تحائف اور کھانے بانٹتے ہیں، جس سے باہمی اعتماد اور ہمدردی کے رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ مقامی کاریگر اور فنکار بھی ان تقریبات کے ذریعے اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس سے نہ صرف ثقافت بلکہ معیشت کو بھی سہارا ملتا ہے۔ آخر میں، کشمیر کے روایتی تہوار صرف مذہبی رسومات نہیں بلکہ امن، اتحاد اور بھائی چارے کے وہ ستون ہیں جن پر کشمیری معاشرہ قائم ہے۔ یہ تہوار وادی کی روحانی گہرائی، ثقافتی تنوع اور اجتماعی یکجہتی کا مظہر ہیں۔ عید کی خوشیوں سے لے کر ہیراتھ کی عقیدت، عرس کی روحانیت سے کھیر بھوانی کی بھائی چارگی تک، ہر تہوار ایک ہی پیغام دیتا ہے کہ کشمیر کی اصل پہچان اس کے تنوع میں اتحاد ہے۔ آج جب وادی امن و ترقی کی جانب گامزن ہے، ان روایتی تہواروں کا فروغ اس کی ثقافتی روح کو زندہ رکھنے اور کشمیری معاشرے کو مزید قریب لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔















