پرامن بلوچ نوجوانوں کا اسلام آباد سے اغوا،ہماری غلامانہ حیثیت کو واضح کرتا ہے، بی این ایم چئیرمین

0
137

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک انسانی بحران جنم لے چکاہے اوراس کی جڑیں ہماری غلامی اورپاکستان کی انسانی،قومی اوراخلاقی اقدارسے محرومی میں پیوست ہیں۔پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ریاست کی ہماری ماں،بہن،بیٹی اوربلوچ فرزندوں کے ساتھ سلوک ہماری غلامانہ حیثیت اورپاکستان کی قبضہ گیریت کو مزیدواضح کرتے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان تسلسل کے ساتھ نہ صرف بلوچ فرزندوں کو اٹھاکرزندانوں میں قیداورانتہائی وحشت و بربریت سے تشددکا نشانہ بنا رہاہے بلکہ تراشیدہ اصطلاحات کے ذریعے ریاستی زندانوں میں قیدبلوچ فرزندوں کے بارے میں زورو شورسے ”لاپتہ افراد“کااصطلاح استعمال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ لوگ ازخود گم ہوگئے ہیں یا انہیں کسی ایسی قوت نے لاپتہ کردیاہے جس کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ریاستی اصطلاحات سیاسی اسیروں کے کیس کو پیچیدہ بنانے یاخو د کوبری الذمہ کرنے کی حیلوں کا ایک کڑی ہے۔حقیقت میں بلوچ لاپتہ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے زندانوں میں غیرقانونی قید ہیں۔

انہوں نے کہا ریاست پاکستان ایک بے آئین اورغیرفطری ریاست ہے جسے فوج اپنے عسکری ومعاشی مفادات کے لیے استعمال کررہاہے اورنام نہاد جمہوریت،عدالتی نظام اورآزادصحافت محض نام کے حدتک وجود رکھتے ہیں لیکن بلوچ قوم یا دیگر مظلوموں کے لئے یہ بھی ہمیشہ فوج کے صف میں کھڑی نظرآتے ہیں ستم یہ کہ پاکستان کے ہاتھوں بلوچوں کی جبری گمشدگی جیسے جنگی جرائم کے ذریعے اپنے آئین کو پائمال کرتارہاہے لیکن عدالت و صحافت اس ضمن میں خاموش یا زیادہ ترپاکستانی فوجی بیانئے کی دفاع و تشہیرکررہے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ایک جانب اسلام آباد میں سیاسی اسیروں کے لئے بلوچ مائیں،بہنیں اوربیٹیاں احتجاج کررہی ہیں تو پاکستان کے وفاقی وزیر کاتضحیک آمیز بیان سامنا آتاہے کہ بلوچ پنجاب میں احتجاج کرسکتے ہیں جنہیں کوئی گولی نہیں مارتا،لیکن بلوچستان میں پنجابیوں کو شناخت کرکے گولی ماری جاتی ہے۔پاکستانی وزیر اصل میں یہ واضح کرناچاہتے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے ایک جزویعنی مسلح جدوجہد میں مارے گئے فوجیوں کے عوض بلوچ اٹھائے جاتے ہیں لیکن پنجاپ پھربھی لواحقین کواحتجاج کرنے کا حق دے رہاہے اورایک عظیم احسان ہے غلام بلوچ قوم پر۔۔۔حالانکہ چوہدری جس پاکستان کی وزیرہے اس کے آئین کے مطابق اسلام آباد پنجاپ نہیں بلکہ پاکستان کادارلحکومت ہے جس میں ریاست کے شہری بشمول غلام احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا آج کے دن دس سال قبل توتک میں ایک خونی آپریشن کے ذریعے 2افرادنعیم اور یحیٰی قتل جبکہ محمد رحیم خان،عتیق الرحمٰن، خلیل الرحمٰن، وسیم، ندیم، آفتاب، فدا، ڈاکٹر ظفر، آصف، عمران، ارشاد، مقصود، ڈاکٹر طاہرسمیت17افراد کو فوج نے اٹھاکر غیرقانونی وغیرانسانی زندانوں میں قید کرکے جبری گمشدگی کا شکاربنادیا جن میں ایک نوجوان مقصود ایک نوجوان کو16جولائی 2011ء میں قتل کرکے اس کی مسخ لاش پھینک دی جب کہ دیگر سولہ افراد کی کوئی خبر نہیں کہ وہ ابھی تک ریاستی عقوبت خانوں میں مقید ہیں یا انہیں اسی علاقے سے 25جنوری 2014ء میں دریافت ہونے والے اجتماعی قبروں کی نظر کیا گیا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا امریکہ،عالمی طاقتیں اپنی مفادات و معاملات کے لئے پاکستان پر بھروسہ نہیں کرسکتے لیکن انہیں بلو چ قوم پر پاکستان کی سترسالہ مظالم اورنازی سلوک نظرنہیں آتا۔ اگر اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں نے پاکستانی وحشت وبربریت پر اسی طرح آنکھیں موندلیں تو پاکستان کے ہاتھوں بلوچ سمیت مظلوم قوموں کی نسل کشی میں نئی شدت آتی رہے گی اوروقت گزرجانے کے بعد اس پر صرف افسوس ہی کیاجاسکے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں