پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ تحریر۔ التمش تصدق

0
124

پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا ہے مقامی سیاسی اشرفیہ کی اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے سرگرمیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے.سرکاری دن منانے کے لیے خوب مال خرچ کیا جا رہا ہے.انتخابات سے قبل ہی بچے بچے کو معلوم ہے انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے اور انتخابات میں کیسے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے.یہی وجہ ہے ان دنوں پاکستان نواز سیاسی پارٹیاں فوجی اشرافیہ سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں.مسئلہ جموں کشمیر سے جڑے محکوم عوام کے حق خودارادیت اور حق آزادی کی حقیقی جدوجہد کو چھپانے کے لیے ریاستی سرپرستی میں کالعدم مذہبی اور وفادار سیاسی جماعتوں کے ذریعے پاک فوج زندہ باد ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور مظلوم کشمیریوں سے یکجہتی کا ناٹک کیا جاتا ہے.پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں اپنی من پسند حکومت کے لیے پہلے وفاداری خریدی جاتی تھی لیکن اب مقتدر قوتوں کی طرف سے وفاداری بیچی جاتی ہے.جس کے پاس سرمایہ ہے وہ سرمایہ کاری کرے اور اقتدار کے مزے لوٹے۔
نوآبادیاتی خطے کی مقامی اشرفیہ قومی غلامی اور طبقاتی جبر کے خلاف محنت کش عوام میں پائے جانے والے غم و غصے کو قابض ریاست کے حکمران طبقے سے سودے بازی اور اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے. پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے حکمران طبقے کا بھی اب تک یہی طریقہ واردات رہا ہے.اب کی بار معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب اور پاکستان سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین تنویر الیاس کی سیاست میں بطور امید وارنام نہاد وزیراعظم آزاد کشمیر آمد نے پی ٹی آئی کی قیادت سمیت پرانے سیاسی دلالوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے.

تنویر الیاس نے نام نہاد آزاد کشمیر میں سیاست کا باقاعدہ آغاز ستائیس فروری کو پاک فوج کے اعزاز میں جلسے سے کیا ہے.جلسے کی کامیابی کے لئے بڑے پیمانے پر پیسے، ریاستی مشینری اور دہشتگرد کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر استعمال کیا گیا.مذہبی انتہا پسند درباری ملاں اور لبرل اپنے سیاسی،مذہبی اور مسلکی اختلافات کو بھولاتے ہوئے اپنے آقاؤں کے اشارے پر تنویر الیاس کے سرمائے کی چھتری تلے طاقت کو سلامی پیش کرنے جمع ہوئے.دہشتگردوں سے یہ جو امن کی دھرتی ہے اس کے پیچھے وردی ہے کہ نعرے لگوائے گے.

دوسری طرف دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے تنویر الیاس پر جو تنقید کی جا رہی ہے وہ کسی نظریاتی اختلاف یا سیاست میں سرمائے کی مداخلت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس بات پر تنقید ہے کہ ہم آپ کے پرانے وفادار ہیں. آپ نے ہمیں نظر انداز کر کے کیوں ایک سرمایہ دار کو ہمارے اوپر بیٹھا دیا ہے.ایک شخص جس کا اس خطے کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا یکدم سرمائے کی طاقت کی بنیاد پر اس علاقے کی سیاست کا اہم کردار بن گیا ہے.بظاہر یہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے لیکن ماضی میں بھی اقتدار کی سیاست اس سے کوئی زیادہ مختلف نہیں رہی ہے.سیاسی مفادات پر ضرب لگنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سیاسی اخلاقیات،اصول اور نظریات یاد آ رہے ہیں جو خود سامراجی دلالی کی بنیاد پر اپنی موروثی سیاست اور خاندانی بادشاہت قائم رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں. قبیلائی غیرت اور تعصب کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو یہاں کے حکمرانوں کا پرانا ہتھیار رہا ہے.سماج میں بڑے پیمانے پر سرمائے کی سرایت کی وجہ سے قبائلی ڈھانچہ ٹوٹ گیا ہے اب اس کی باقیات ہی بچی ہیں.یہی وجہ ہے قبائلی غیرت اور تعصب کا یہ ہتھیار بھی سرمائے کی طاقت کے آگے بیکار ہے.
جیسا کارل مارکس نے کمیونسٹ مینی فسٹو میں لکھا تھا کہ” سرمایہ دار طبقہ جدید ذرائع پیداوار کی بنیاد پر قوموں کو حتیٰ کہ انتہائی وحشی قوموں کو بھی اپنی تہذیب کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے. اس کے تجارتی مال کی ارزانی گولے بارود کا کام کرتی ہے.جن سے مار مار کر وہ ہر دیوار چین کو گرا دیتا ہے،ضدی سے ضدی وحشیوں کو جن کے دل سے غیروں کی نفرت کا جذبہ مارے نہیں مرتا، ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے.

پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں اسی جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے. چاہے اس جماعت کی یہاں کوئی بنیاد نہ ہوں، چند روز میں پارٹی بنتی ہے اور اس کی حکومت بن جاتی ہے.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے پاکستان میں موجود وفاقی حکومت یہاں بہت مقبول ہوتی ہے بلکہ نام نہاد آزاد کشمیر کے سیاسی ڈھانچہ نوآبادیاتی طرزِ پر اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے.قانون ساز اسمبلی کی کل 53 نشستوں میں سے بارہ نشستیں مہاجرین کی ہیں جن میں جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتے ہیں جن پر وفاقی حکومت برائے راست اثر انداز ہوتی ہے.اس کے علاوہ نام نہاد آزاد کشمیر کٹھ پتلی حکومت اور اسمبلی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے.عوام کی اکثریت ک?ٹپتلی ریاست کی حیثیت کا ادراک رکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے طاقت کا اصل منبع وفاقی حکومت ہے.ان انتخابات سے کسی کو تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے.اس لیے ووٹ کا استعمال کسی بڑے مقصد کے بجائے انتخابات کے دوران حاصل کیے جانے والے فوری فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.یہاں بنیادی حقوق کے حصول کے لئے بھی جیتنے والے امیدوار سے ذاتی اور سیاسی تعلقات ضروری ہیں.اجتماعی مسائل کے حل کے لیے انفرادی طور پر افراد سے وعدے کیے جاتے ہیں اور ووٹ لیے جاتے ہیں. حکمرانوں کے لیے تو وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے.

یوں تو پاکستان میں بھی انتخابات جیتنے کے لیے امیدوار کا فوجی سٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہونا ضروری ہے لیکن پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں تو بطور پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی فوجی اشرافیہ کی وفاداری کی یقین دہانی ضروری ہے.پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے الحاق پاکستان کا حامی ہونا ضروری ہے.کوئی بھی سیاسی جماعت یا فرد جو الحق پاکستان کا حمایتی نہیں ہے وہ انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے.اس طرح انتخابات سے قبل ہی عوام کی اکثریت کو انتخابات کے عمل سے باہر کر دیا جاتا ہے.انتخابات میں الحاق پاکستان کی شرط پاکستانی حکمران طبقے کی کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی حقیقت کو بھی عیاں کرتی ہے.

پاکستانی حکمران طبقہ کی طرف سے دنیا کو اور مظلوم کشمیری عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے بننے والی اسمبلی نام نہاد آزاد کشمیر کو چلا رہی ہے.حقیقت میں اس خطے کا مکمل کنٹرول مٹھی بھر سول اور فوجی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے. یوں تو سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی سرمائے کی آمریت ہے جس میں اکثریتی محنت کش عوام کے پاس صرف ووٹ دینے کا حق ہے اور اقلیتی سرمایہ دار طبقے کے پاس ووٹ لینے کا حق ہے.سرمایہ دارانہ آزاد ملکوں میں بھی نام نہاد آئین ساز اسمبلی ہوتی ہے لیکن اس خطے کو تو نوآبادیاتی طرز کے ایکٹ 74 کے تحت چلایا جا رہا ہے.جس میں تمام اختیارات پہلے وزارت عمور کشمیر کے پاس تھے تیرھویں آئینی ترمیم کے بعد اب برائے راست وزیراعظم پاکستان کے پاس ہیں.قانون سازی کے جو محدود اختیار موجود ہے ان کو بھی وزیر اعظم پاکستان منسوخ کر سکتا ہے اور آئین ساز اسمبلی کو معطل کر سکتا ہے. پاکستان کی پارلیمنٹ جس میں کشمیر کا کوئی نمآئندہ موجود نہیں ہے،میں منظور ہونے والے قوانین پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں لاگو ہوتے ہیں.یہ ان قانون ساز اداروں کی حیثیت ہے جن کے انتخابات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے.
ایسی صورتحال میں یہاں کی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل کے حل اور نمائندگی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہیجو خود اپنے اختیارات کے حصول کی لڑائی لڑنے سے قاصر ہیں.اگر ان کو اختیارات مل بھی جائیں تو قبائلی تعصبات،دولت اور طاقت کی بنیاد پر منتخب ہونے والے یہ اراکین اس اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہیں کہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی اقدامات کر سکیں.تعلیم علاج،روزگار،انفراسٹرکچر کی تعمیر جیسے عوام کے حقیقی مسائل کے حل میں نہ انکی دلچسپی ہے اور نہ انکے حل کا کوئی ٹھوس پروگرام اور منشور ان جماعتوں کے پاس ہے. امید واروں کی اہلیت دولت اور قابض ریاست کی پشت پناہی ہے.انتخابات کا یہ مہنگا کھیل چند دولت مندوں کا ہے محنت کش عوام کا اس میں تماشائیوں سے زیادہ کوئی کردار نہیں ہے.محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل کا حل انتخابات میں نہیں انقلاب میں ہے.سرمایہ دارانہ جمہوریت میں نہیں عوامی پنچایتوں پر مشتمل محنت کشوں کے اپنے اقتدار میں ہے.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں