ترقی کی راہ پر گامزن بنگلہ دیش اور پاکستان کی جنگی جرائمز – اسلم خان

0
340

بنگلہ دیش کی آزادی کو26 مارچ2021 کو پچاس برس مکمل ہو گئے ہیں،26 مارچ1971 کو بنگلہ دیش نے غیر فطری ریاست پاکستان سے اپنی آزاد ی حاصل کی۔

بنگالی قوم نے اپنی دھرتی کی آزادی کے لیے بے دریغ قربانیاں دیں،پھر جا کے ٹیگور کی دھرتی کے وارث آزاد ہوئے،موجودہ بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے، گزشتہ سال ایچ ایس بی سی بنک نے ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی تھی کہ بنگلہ دیش2030 تک دنیا کی26 ویں بڑی اکانومی بن جائے گی۔

بنگلہ دیش میں، 120 سے زیادہ کمپنیاں 35 ممالک میں انفارمیشن اور مواصلاتی ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) مصنوعات کی برآمد کرتی ہیں جن کی مالیت تقریبا 1 بلین ڈالر ہے،2021 تک، یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس میں اضافہ ہوکر 5 بلین ڈالر ہوجائے گا۔ در حقیقت، آئی سی ٹی انڈسٹری کی بڑھتی ہوئی طاقت چار اہم ستونوں کی مدد کرتی ہے جو 2021 تک بنگلہ دیش کی ڈیجیٹل معیشت میں تبدیلی، اور 2041 تک علمی معیشت کی مدد کرے گی

آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، بنگلہ دیش میں دنیا میں آن لائن کارکنوں کا دوسرا سب سے بڑا حب موجود ہے،مہارت کو مزید بڑھانے کے لئے ملک کی 130 یونیورسٹیوں میں خصوصی لیبز قائم کر رکھے ہیں۔ آئی بی ایم جیسے عالمی ٹیکنالوجی کے شراکت داروں کے ساتھ فرنٹیئر ٹیک سینٹرز میں اعلی درجے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں تربیت دینے والے پیشہ ور افراد پر بھرپور توجہ مرکوز ہے۔

بنگلہ دیش میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں تقریبا 8 فیصد اضافے کا سامنا ہے اور یہ دنیا کی تیز رفتار ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک ہے۔ بنگلہ دیش بہت سارے ممالک سے آگے ورلڈ اکنامک فورم کے جامع ترقیاتی اشاریہ میں 34 ویں نمبر پرہے اور 2030 تک دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنے گی۔2020 میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی کی شرح نمو 8 فیصد رہی ہے، اعدادوشمار نے اسے ہندوستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک سے آگے رکھا ہے۔

جب آزادی حاصل ہوئی تو 1971 میں، بنگلہ دیش ناقابل یقین حد تک ناقص تھا۔ جی ڈی پی کی شرح نموح نہ ہونے کے برابر تھی، سیاسی عدم استحکام پھیلا ہوا تھا، اور قوم سیلاب اور قحط سے تباہ ہوئی تھی۔آزادی کے بعد ہندوستان نے بنگلہ دیش کی کانومی میں اہم کردار ادا کیا ہے، خاص کر گزشتہ بارہ سالوں میں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اوسط شرح نمو 8 فیصد ہے، جو بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی کا ثبوت ہے۔

جی ڈی پی کی گروت کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے،2016 میں 7.1% جبکہ2017 میں 7.3%، اور 2017 میں 7,9% اور2019 اور 20 میں 8,0% فیصد رہی،اس برس معاشی ماہرین کے مطابق جی ڈی پی گروت دو کئے ہندسے کو چھوئے گا۔ یعنی10% متوقعہ ہے۔

اگر ہم دیگر ایشیائی ممالک کی جی ڈی پی کا جائزہ لیں تو پاکستان اپنی اندرونی چپقلشوں،دہشت گردانہ پالسیوں کی وجہ سے سب سے نیچے ہے،جب کہ بنگلہ دیش نے ترقی کی راہ میں ہندوستان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

جی ڈی پی 2020
پہلے نمبر پر۔ بنگلہ دیش 8.0% ۔ دوسرے نمبر پہ، انڈیا 7.2% ۔ تیسرے نمبر پر مالدیب 6.3% ۔ چوتھے نمبر پر نیپال 6.3% ۔ پانچویں نمبر پر بھوٹان 6.0% ۔چھٹے نمبر پر سری لنکا 3.5% ۔ ساتویں نمبر پر افغانستان 3.4% ۔ آٹھویں نمبر پر پاکستان 2.8%

گراف

بنگلہ دیش میں سنہ 1970 کی دہائی میں جو لباس کی تجارت شروع ہوئی تھی وہ اب 30 بلین ڈالر کی صنعت ہے۔ لیکن معیشت متنوع ہے۔ خدمات کے شعبے مائکرو فنانس اور کمپیوٹنگ سمیت ملک کے جی ڈی پی کا 53 فیصد بنتا ہے۔بنگلہ دیش میں ڈیجیٹل تبدیلی اور جاری معاشی نمو میں آئی ٹی انڈسٹری کی کامیابی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ہر سال تقریبا ایک بلین ڈالر کی ٹیکنالوجی مصنوعات برآمد کرتا ہے، ایک ایسا اعدادوشمار جس کی توقع ہے کہ 2021 تک بڑھ کر 5 بلین ڈالر ہوجائے گی۔ ملک میں چھ لاکھ آئی ٹی فری لانسرز بھی ہیں۔

اقوام متحدہ کے محکمہ برائے اقتصادی و سماجی امور کے ڈینیئل گی کے مطابق بنگلہ دیش میں صحت، تعلیم، بچوں کی اموات اور زندگی کی متوقع عمر میں وسیع پیمانے پر بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے ترقی ہوئی ہے اور معاشی کمزوری کم ہوئی ہے۔ “یہ واقعی ایک کامیابی کی کہانی ہے،”

ٹیکسٹائل دواسازی کی مصنوعات الیکٹرانکس شپ بلڈنگ آٹو،موٹو سائیکل چمڑے کی صنعت، گلاس، پیپر،پلاسٹک، فوڈ اور مشروبات، سیمنٹ، چائے، چاول، قدرتی گیس اور خام پیٹرولیم، آئرن اور اسٹیل کی صنعتیں ملکی ترقی میں اہم ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق، بنگلہ دیش کا جی ڈی پی سالانہ نمو 8 فیصد کے ساتھ 2019 میں 317 بلین ڈالر تک جا پہنچا۔ اس نمو کے باوجود، مالیاتی پالیسی کی ترجیح گھریلو وسائل کو متحرک کرنا ہوگی، کیونکہ ٹیکس محصولات جی ڈی پی کا صرف 9.6 فیصد ہیں۔ مالیاتی شعبے کو بھی ریاستی کنٹرول والے بینکوں کے غیر کارکردگی بخش قرضوں (این پی ایل) کے مستقل مسئلے کو دور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بنگلہ دیش کا مالی سال 30 جون سے یکم جولائی تک جاری رہتا ہے۔بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کا تخمینہ ہے کہ جون 2019 میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3220 ارب ڈالر سے بڑھ کر جون 2020 میں 36.0 بلین ڈالر ہوگئے ہیں۔

آج شاندار مستقبل کے پیچھے لاکھوں بنگالیوں کی قربانیاں شامل ہیں۔پاکستانی اسلامی فوج نے اپنے مذہبی شدت پسندوں جمیت کے دہشگرد الشمس،البدر کے ساتھ مل کر تین ملین بنگالیوں کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساڑھے تین لاکھ بچیوں،لڑکیوں،خواتین کی عصمت دری کی،ڈیڑھ کروڑلوگ اپنی زمین سے بدر ہوئے اور ہندوستان میں پناہ لی،۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے دہشت گرد گرؤں البدر اور الشمس نے ایک ہی دن میں ڈھاکہ میں ہزاروں دانشوروں،صحافیوں،لکھاریوں،اہل قلم کو قتل کیا۔

غیر فطری ریاست پاکستان کے بدنام زمانہ جنرل یحےٰی خان نے جنوری میں الیکشن کا اعلان کیا اور7 دسمبر1970 میں الیکشن کے نتائج نے یحےٰی خان سمیت سب کو ہوس باختہ کیا، جب مجیب الرحمن اور انکی جماعت عوامی لیگ نے کلین سوپ کرتے ہوئے نیشنل اسمبلی کی160 سیٹیں جیت لی،جبکہ بھٹو کی پی پی پی صرف81 سیٹیں جیت سکی،۔

مگر دہشت گرد ریاست نے مجیب کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا اور بھٹو نے کہا کہ یہ کالے کلوٹے بنگالی ہم پر کیا حکومت کریں گے،ان تمام غیر قانونی اقدامات پر دنیا خاموش رہی،بلکہ آج دنیا ان وار کرائم کے خلاف کوئی آواز اُٹھانے کو تیار نہیں ہے،اور ان جنگی جرائم پر دہشت گرد ریاست پاکستان کو کبھی انصاف کے کٹہرئے میں نہیں لایا گیا ہے۔جسکی وجہ سے یہ ریاست آج دنیا کے لیے درد سر بن چکی ہے۔
بلوچ اور پشتون قوم کی نسل کشی سے لے کر سندھی،کشمیری عوام کی قومی شناخت کو ہڑپنے والے اس ریاست کو اگر بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے خلاف کٹہرے میں لایا جاتا تو آج اس خطے کی صورت حال کچھ اور ہوتی۔اتنا ہی نہیں آج دنیا کا کوئی بھی ملک اس شیطان کی شر سے محفوظ نہیں ہے،۔

بنگالی قوم آج بھی پاکستان کی مذہبی دہشت گردی کا شکار ہے،پاکستان کے دہشت گردانہ مذہبی شدت پسندوں نے15 اگست1975 کو بابائے بنگال مجیب الرحمن کو قتل کیا گیا،اسی طرح3 نومبر1975 کو ڈھاکہ کے سینٹرل جیل میں مجیب الرحمن کی پارٹی کے تمام رہنماؤں کو پاکستان نواز دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔آج بھی اسی ذہنیت کو بنگلہ دیش میں پروان چھڑا کر آزادی اظہار پر یقین رکھنے والوں کو سرے عام قتل کیا جا رہا ہے۔

مہذب ممالک و عالمی طاقتوں کو پاکستان کی اس دہشت گردانہ پالسیوں کو روکھنے کے لیے پرانے فائلز کھول کر اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق بنگلہ دیش میں کیے جانے والے جنگی جرائم کے لیے انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا،بصورت دیگر دنیا کے نقشے میں موجود یہ کینسر نما ملک سب کے لیے خطرے ہی رہے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں