ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے ضلع اٹک کے علاقے فتح جنگ سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سرمد سلطان کے لاپتا ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
تاریخ کے حوالے سے ٹوئٹس کرنے والے سرمد سلطان کا غائب ہونا گزشتہ رات سے پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے۔
فتح جنگ کی پولیس کے مطابق اب تک ان کے پاس سرمد سلطان کے لاپتا ہونے کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر تاریخ کے حوالے سے لکھنے والے سرمد سلطان گزشتہ دو روز سے لاپتا ہیں۔ ان سے رابطے میں رہنے والی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ گل بخاری کا کہنا ہے کہ سرمد سلطان کی اہلیہ نے پہلے ان کی ایک خاتون رشتہ دار کی وفات کا بتایا کہ سرمد سلطان فی الحال ٹوئٹر پر نہیں ہوں گے۔ اس کے ایک روز بعد انہوں نے سرمد سلطان کے غائب ہونے کا کہا اور اب وہ کسی پیغام کا جواب نہیں دی رہیں۔
گل بخاری کا کہنا تھا کہ اصل صورتِ حال کیا ہے، یہ اب تک واضح نہیں ہے۔ لیکن سرمد سلطان کا ایسے غائب ہونا بہت سے شکوک کو جنم دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرمد سلطان کی اہلیہ کی طرف سے کسی بات کا جواب نہ دینا اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ان پر دباو¿ ہے۔ ایسے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو عموماً کہا جاتا ہے کہ لاپتا شخص دو تین روز میں واپس آ جائے گا۔ لیکن اگر اس کے حوالے سے شور مچایا گیا تو واپسی مشکل ہو گی جس کی وجہ سے بیشتر کیسز میں بات نہیں کی جاتی۔
اس بارے میں فتح جنگ پولیس کے ایس ڈی پی او ذوالفقار گیلانی کا کہنا ہے کہ اب تک سرمد سلطان نام کے کسی شخص کے لاپتا ہونے یا اغوا کیے جانے کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس بارے میں کوئی اطلاع موصول ہوئی تو فوری کارروائی شروع کی جائے گی۔
سرمد سلطان کے ٹوئٹر پر 48ہزار سے زائد فالورز ہیں۔ ان کی ٹوئٹس میں تاریخ کے حوالے سے مختلف تحقیقاتی موضوعات کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ریاستی اداروں پر تنقید بھی ہوتی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی سرمد سلطان کے حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اسی نظام کے خلاف تو ان کی جنگ ہے جہاں ایک مختلف رائے رکھنے والے کو اس طرح دن دھاڑے غائب کر دیا جاتا ہے۔
مریم نواز کے بقول اس طرح اپنے ہی شہریوں کو زبردستی اغوا کر کے صرف اور صرف نفرت کو جنم دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سرمد سلطان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے عمار علی جان نے کہا کہ تاریخ پر بات کرنے والے کی زبان بندی کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ بہت افسوس ناک ہے۔