ریپ سے متعلق پاکستانی وزیراعظم کا بیان ناقابل قبول، معافی مانگے،ایچ آر سی پی

0
137

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایچ آر سی پی) نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ریپ کے حوالے سے کی گئی بات کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کردی۔

وزیراعظم کے بیان کو ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ اس حوالے سے نہ صرف حیرت کا باعث ہے کہ ریپ کہاں، کیوں اور کیسے ہوتا بلکہ اس سے ریپ کے شکار ہونے والے پر الزام بھی عائد ہوتا ہے، جس کے بارے میں حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ بچوں سے لے کر عزت کے نام پر ہونے والے جرائم تک شمار کیا جاسکتے ہیں’۔

ایچ آر سی پی نے کہا کہ ‘ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر معافی اور ریپ سے متعلق معاملات کو جرم کے طور پر دیکھنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا جائے’۔

وزیر اعظم عمران خان نے ٹیلی فون پر براہ راست عوام کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاشرے میں فحاشی جتنی پھیلتی جاتی ہے اس کا معاشرے پر اثر پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کیسز کا صرف قانونی مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ جنگیں معاشرے نے مل کر لڑنی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ بولی ووڈ نے جب ہولی ووڈ کو اپنانا شروع کیا تو وہاں بھی ایسے حالات ہوگئے کہ دہلی کو اب ریپ کیپیٹل کہا جارہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘دین میں پردے کے احکامات کے پیچھے بھی یہی فلسفہ ہے کہ فیملی نظام کو تحفظ فراہم کیا جاسکے’۔

وزیراعظم کے اس بیان پر شدید تنقید کی گئی تھی اور سوشل میڈیا پر مختلف شخصیات نے اس کو ناگوار قرار دیا تھا۔

سماجی کارکن جبران ناصر نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘ریپ طاقت کے عدم توازن کا نتیجہ ہے اور یہ اکسانے پر نہیں ہوتا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ریپسٹ اپنے فعل سے اس وقت باز آتے ہیں جب انہیں سزا اور احتساب کا خوف ہو اور جب انہیں ہمارے جیسے نظام کی وجہ سے اس طرح کے خوف سے آزاد کردیا جائے تو وہ بچوں کا بھی ریپ کریں گے’۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس روزانہ 11 ریپ کیس رپورٹ ہوئے جبکہ حکام نے اعتراف کیا کہ اصل اعداد وشمار اس سےکہیں زیادہ ہے۔

وار اگینسٹ ریپ نامی تنظیم کے مطابق تین فیصد سے کم کیسز پر سزائیں دی جاتی ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ساحل کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار میں کہا گیا تھا کہ ایک ہزار 489 کیسز بچوں کے کیسز رپورٹ ہوئے اور 2020 کے پہلی ششماہی میں ہراسانی کے روزانہ تقریباً 8 کیسز رپورٹ ہوئے، متاثرین میں 785 لڑکیاں اور 704 لڑکے شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق ملزمان میں اکثر کا تعلق متاثرہ خاندانوں کے جاننے والے شامل تھے اور یہ 822 کیسز ہے جبکہ 135 کیسز میں غیر افراد ملوث تھے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں