مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے باڈر بند کرنے پرچار بلوچ بھوک و پیاس سے جابحق ہو گئے ہیں
گرشتہ کئی روز سے پاکستانی فوج نے ایران سے جڑئے باڈرز کو سیل کر دیا ہے جس سے دس ہزار سے مال بردار گاڑیاں پھنسے ہوئے ہیں اور بیس ہزار سے زائد بلوچ کئی روز سے بھوک و پیاس اور شدید گرمی کی لپٹ میں ہیں۔
مقبوضہ بلوچستان کے رہائشی فضل بلوچ نے پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی علاقے پر جانے سے قبل اپنی اہلیہ اور بچوں سے کہا تھا کہ ’واپسی پر عید کی خریداری کریں گے اور روزے گھر میں رکھیں گے۔‘ مگر جب یہاں سے ان کی لاش واپس آئی تو ان کی اہلیہ اور کم عمر بچوں نے اپنی چیخوں سے زمین، آسمان ہلا دیا۔فضل بلوچ کی لاش کو دیکھ کر ان کی اہلیہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ ’آپ نے تو عید کی خریداری اور اچھے دنوں کی بات کی تھی۔ مگر آپ قرضہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ان بچوں کا کیا ہوگا؟‘
مقبوضہ بلوچستان کے ضلع کیچ میں تربت کے رہائشی زبیر بلوچ کے مطابق ان کے رشتہ دار فضل بلوچ کی ہلاکت پر خاندان غم سے نڈھال ہے۔ پاکستان ایران سرحد پر کئی روز سے پھنسے ہوئے تھے جہاں پر ’سخت گرمی، بھوک اور پیاس کی شدت سے‘ وہ ہلاک ہوگئے۔
بارڈر ٹریڈ یونین کے جنرل سیکریٹری سید گلزار دوست کے مطابق فضل بلوچ کی تدفین 17 اپریل کو کی گئی۔ اس سے قبل بارڈر سے تین لاشیں لائی جاچکی ہیں۔کیچ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے صدر غلام جان شمبیزی کا بھی کہنا ہے کہ ’ہماری اطلاعات کے مطابق بارڈر پر پھنسے ہوئے کم از کم چار لوگ گرمی، بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔‘
جبکہ ضلع کیچ کے کمشنر نے اس بارے کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق فضل بلوچ تجارت کے لیے ایران جانے والی ڈاٹسن گاڑی چلاتے تھے اور 18 ہزار روپے کی تنخواہ پر بطور ڈرائیور ملازمت کرتے تھے۔وہ عرصہ دراز سے یہی کام کر رہے تھے۔ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ان کے چار دورے لگتے تھے۔ ہر ایک ٹرپ کے بعد انھیں دو ہزار روپے اضافی ملا کرتے تھے۔
فضل بلوچ گھر سے 30 مارچ کو دشتک ضلع کیچ کے کراسنگ پوائنٹ سے ایران بارڈر جانے کے لیے نکلے تھے جس کے بعد وہ ادھر ہی پھنس گئے۔ 16 اپریل کو ان کی لاش آبائی علاقے تربت پہنچائی گئی تھی۔
انکے خاندان والوں کا کہنا ہے ڈاٹسن کے کنڈکٹر اور لاش پہنچانے والوں نے بتایا کہ فضل بلوچ اپنے ساتھ جو پانی اور خوراک لے کر گئے تھے وہ چند دنوں میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح پانی اور خوراک کی قلت کا شکار ہوگئے تھے۔
کنڈکٹر نے بتایا کہ ’فضل بلوچ کی حالت پانی اور خوراک کی کمی کے سبب سے روز بروز خراب ہو رہی تھی۔ 15 مارچ کو میں نے دیکھا کہ وہ نڈھال ہو کر سخت گرمی میں، تپتی دھوپ میں گرے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دے کر پانی مانگا۔ جب میں پانی کی تلاش میں نکلا اور واپس آیا تو دم توڑ چکے تھے۔ ان کے ارد گرد لوگ کھڑے تھے۔‘
واضح رہے بلوچستان کے مکران ڈویڑن کے اکثریتی لوگوں کے روزگار کا انحصار ایران کے ساتھ تجارت پر ہے۔یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بارڈر کے دونوں اطراف کے بلوچوں کے آپس میں نہ صرف روابط ہیں بلکہ رشتہ داریاں بھی ہیں۔
واضح رہے کہ دونوں اطراف کے بلوچوں کو ایک دوسرے کی تقریبات وغیرہ میں شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ دونوں اطراف کے بلوچ ایک دوسرے سے شادیاں بھی کرتے ہیں اور ان کے آپس میں کاروباری روابط بھی موجود ہیں۔مگر کچھ عرصہ قبل دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع کے بعد پاکستان نے بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا تھا۔ یہ کام 80 فیصد تک مکمل ہوچکا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مکران ڈویڑن کے اندر تقریباً کوئی 17 کراسنگ پوائنٹ قائم کیے گے ہیں جس میں پانچ ضلع گوادر، آٹھ ضلع کیچ اور چار ضلع پنچگور میں قائم کیے گے ہیں۔
ضلع کیچ میں اس وقت کے عبدوئی اور دشتک جبکہ ضلع پنچگور کے جیرک اور کوردپ کے کراسنگ پوائنٹس پر لوگ بڑی تعداد میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضلع گوادر کے تمام کراسنگ پوائنٹ بند ہیں۔جن مقامات پر لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ وہاں پر سخت گرمی ہے۔ کھانے پینے کے لیے کسی قسم کے کوئی ریستوران، چھپر ہوٹل وغیرہ نہیں ہیں۔ پانی تک دستیاب نہیں ہے۔ لوگ اپنے ساتھ چند دن کا پانی اور خوراک لے کر جاتے ہیں مگر پھسے رہنے کے باعث ختم ہوجاتا ہے۔’
‘ٹیلی فون کے سگنل بھی موجود نہیں ہیں۔ ان کی خیر خیریت کا بھی کوئی پتا نہیں چلتا۔ کچھ لوگ ایک ایک ماہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر والے کرب اور اذیت کا شکار ہیں۔ اس وقت صورتحال بہت زیادہ خراب ہے۔ مکران ڈویڑن میں مختلف کراسنگ پوائنٹس پر کم از کم دس سے بارہ ہزار گاڑیاں کئی روز سے پھنسی ہوئی ہیں۔ ہر ایک گاڑی کے ساتھ کم از کم دو لوگ موجود ہیں۔ جن کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جبکہ گاڑیوں کی لمبی لائنوں کی وجہ سے وہ واپس بھی نہیں آسکتے ہیں۔