پشتون قوم پرست رہنما عثمان کاکڑقتل پر تعزیت کا سلسلہ جاری

0
511

پاکستانی خفیہ اداروں کے حملے کے بعد زیر علاج پشتون قوم پرست رہنما عثمان کاکڑ پیر کے روز کراچی میں انتقال کر گئے۔افغان صدر کے ساتھ بلوچ اور پشتون رہنماؤں و مختلف مکتب فکر کے لوگوں کے تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔

عثمان کاکڑ کے بیٹے اور رشتہ داروں کے مطابق انھیں پاکستانی خفیہ اداروں نے قتل کیا ہے۔

پیر کے روز سندھ کے راجدانی کراچی میں پشتون قوم پرست رہنما عثمان کاکٹر انتقال کر گئے اور تعزیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے، پشتون قوم پرست رہنما عثمان کاکٹر کو انکے گھر میں حملہ کر کے زخمی کیا گیا جسکے بعد کوئٹہ اور پھر کراچی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔عثمان کاکٹر نے سینٹ کے فلور پر اپنی آخری تقریر میں کہا تھا کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور ایم آئی انھیں قتل کرنا چاہتے ہیں مگر وہ موت سے نہیں ڈرتے۔

افغانستان کے صدارتی محل سے جاری اعلامیہ کے مطابق صدر اشرف غنی نے عثمان کاکڑ کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ‘عثمان خان کاکڑ افغان سرزمین کے زیرک سیاست دان اور امن کے خواہاں تھے۔ وہ افغان امن عمل کے حمایتی اور افغانستان میں بیرونی مداخلت کے سخت مخالف تھے۔عثمان خان کاکڑ ہر قسم کے تشدد، ظلم اور جبر کے خلاف اپنے مظلوم اور محکوم عوام کی آواز تھے اور ان کی موت افغان سرزمین اور عوام کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ افغان حکومت اور عوام کی جانب سے ہم پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور ان کے خاندان کے غم میں شریک ہیں۔‘

بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہمارے سیاسی اختلافات کے باوجود، ہمیں افسوس ہے کہ مظلوم اقوام کیلئے ایک دلیرانہ آواز عثمان کاکڑ آج چل بسے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اپنے طالب علمی کی سیاسی زندگی سے لے کر عوامی قائد تک، انہوں نے ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وہ ایک سچے شریف آدمی تھے۔ ان کے اہل خانہ اور پشتون قوم سے میری تعزیت۔

بلوچ آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ نے اپنے ایک ٹیوٹ میں کہا ہے کہ عثمان کاکڑ ایک اچھے قوم پرست اور ایک عظیم انسان تھے۔ وہ مظلوموں کے لئے ایک آواز تھا۔ ہم ان کے انتقال کے غم میں ان کے اہلخانہ کے ساتھ شریک ہیں۔ اللہ پاک اس کی مغفرت کرے اور ان کے اہل خانہ کو اس نقصان کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بی این پی کے رہنماء ثناء بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ عثمان لالا کی شہادت کا رنج و ملال الفاظ اور جذبات میں بیان نہیں ہوسکتا- عشروں تک ساتھ جدوجہد کیا – مشرف کیخلاف پونم کی تحریک میں بلوچستان بھر کے دورہ میں ایک ساتھ رہے- انکی کمی بلوچستان کی سیاست میں ہمیشہ رہے گی۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے اسے واضح قتل قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور احمد پشتین نے اپنے بیان میں کہا ہے عثمان کاکڑ کی وفات پر غم کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں۔عثمان کاکڑ اپنے نظریات اور مظلوموں کے حقوق کے لیے اپنی جدوجہد پر قائم تھے۔ان کی وفات ایک بہت بڑا نقصان ہے جو کبھی ُپر نہیں ہوسکتا۔ہم اس مشکل وقت میں عثمان کاکڑ کے خاندان اور پارٹی کے ساتھ ہیں۔عثمان کاکڑ کے قتل کی تحقیقات ہونی چاہئے۔

بلوچ آزادی پسند رہنما، بی ایس او کے سابق چئیرمین،بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے سابق سیکریٹری جنرل رحیم بلوچ نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کی موت ایک منصوبہ بند قتل لگتا ہے۔ اس نے سینیٹ کے اپنے الوداعی تقریر میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو دھمکی دینے کے لئے دوٹوک الزام لگایا تھا۔ اس نے یہ بھی واضح طور پر کہا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی اس کے ذمہ دار ہوں گے اگر اس کی یا اس کے اہل خانہ کے ساتھ کچھ بْرا ہوا۔وہ مظلوموں کی آواز تھا۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ پشتون قوم پرست رہنما جو مکمل تندروست تھے انکو اہل خانہ کی غیر موجودگی میں نشانہ بنایا گیا اور پھر انکو ہسپتال منتقل کیا گیا،
انکے بیٹے نے بھی میڈیا کو بتایا کہ انکے والد کو قتل کیا گیا ہے اور کچھ عرصے قبل سینٹ کے ایک اجلاس میں خود عثمان کاکٹر نے بھی کہا کہ انھیں پاکستانی خفیہ اداے قتل کرنے کی دھمکی دی رہے ہیں اور وہ یہ بات قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ جب انکو قتل کیا جائے گا تو وہ نامعلوم نہیں ہیں بلکہ ملک کے دو خفیہ ادارے ہونگے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ان کی وفات پر سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

پشتون قوم پرست رہنماء عثمان کاکڑ کے وفات پر بلوچستان سمیت دنیا بھر سے دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ان کی وفات پر سندھی قوم پرست رہنماوں اور دیگر افراد اپنے دکھ کا اظہار کررہے ہیں۔سائیں جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے کہا کہ عثمام کاکڑ نے ہمیشہ ملک کی مظلوم قوموں کے حقوق کی بات کی، اس کے بچھڑنے سے ہم ایک باکردار اور بااصول سیاستدان سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہم ان کے لواحقین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عثمان کاکڑ کے بچھڑنے سے نا صرف پشتون قوم بلکہ ملک ایک مظلوم دوست رہنماء سے محروم ہوا ہے۔

جِیئے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو نے کہا کہ عثمان کاکڑ ساری مظلوم اقوام کی حقوق کی مشترکہ آواز تھی۔ ہم سندھی قوم کی جانب سے پشتون قوم پرست رہنماء عثمان کاکڑ کے وفات پر پشتون قوم کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

اس موقع پر بلوچستان، سندھ،پشتونستان کے سیاسی، سماجی اور تمام قوم پرست جماعتوں کی جانب سے پشتون رہنماء عثمان کاکڑ کی وفات پر سندھی سوشل میڈیا پر انتہائی گہرے دکھ اور پشتون قوم سے تعزیت کا اظہار جاری ہے۔

عثمان کاکڑ کے سندھی قوم پرست رہنماوں سے قریبی تعلقات تھے۔ روان سال 17 جنوری 2021 کو وہ سندھ کے معروف قوم پرست رہنماء جی ایم سید کی سالگرہ کے تقریب کے حوالے سے“سن”شہر کے جلسے میں بھی شریک ہوئے تھے۔ جہاں پر انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھی، بلوچ اور پشتون قوموں کو مشرکہ اور متحد ہوکر اپنی حقوق کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ریاست پاکستان نے جی ایم سید سے لیکر باچا خان تک سب رہنماوں کو غدار اور باغی کہا لیکن وہ مظلوم اقوام کے حقیقی آواز تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں رہنے والے پشتون اب سندھ کی سرزمین کے مستقل باشندے ہیں، میں ان کو یہ ہی پیغام دینے آیا ہوں کہ وہ بھی سندھ کی حقوق کی جدوجہد میں سندھی قوم کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔

ہر دلعزیز عوامی سیاستدان عثمان خان کاکڑ پراسرار طور پر شدید زخمی ہونے کے بعد پیر کے روز کراچی میں وفات پاگئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 60 سال تھی۔عثمان خان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد کو قتل کیا گیا ہے۔عثمان کاکڑ کو 17 جون کو شہباز ٹاؤن میں واقع ان کے گھر سے بے ہوشی کی حالت میں ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

پشتون قوم دوست رہنما اور عثمان خان کاکڑ کے قریبی رشتے داروں کے بیانات کے مطابق ان کی حق گوئی ان کی موت کی وجہ بنی ہے۔ انھوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ عثمان خان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے بلکہ انھیں قتل کیا گیا ہے۔

ان کے بیٹے خوشحال خان عثمان کاکڑ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں پتا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ کس نے کیا اور کیوں کیا گیا ہے۔اس سے پہلے بھی لالا نے سینٹ میں اپنے بیانات میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ مجھ سمیت، ان کے بھائی اور پارٹی کارکنان کو یہ پیغامات ملے ہیں کہ اگر لالا نے جمہوریت کی بات کرنی نہ چھوڑی اور پشتونوں کے لیے آزادی کے مطالبے سے دستبردار نہ ہوئے تو انھیں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے، جو وہ لوگ چاہتے تھے انھوں نے وہی کردیا اور انھیں شہید کردیا۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید ہمارے پارٹی لیڈران کام کر رہے ہیں اور وہ مزید اپ ڈیٹ دیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی وفات سے پہلے ہم ان کے ساتھ تھے اور ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے اس لیے پہلے اس پر بات نہیں کی گئی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں بڑی چالاکی اور بزدلانہ طریقے سے قتل کیا گیا ہے۔

عثمان خان کاکڑ کا سینٹ میں آخری الفاظ تھے کہ میرے قتل کو گمنام کھاتے میں نہیں ڈالا جائے،10 مارچ 2021 کو عثمان خان کاکڑ سینٹ آف پاکستان سے اپنے الوداعی خطاب میں کہا تھا کہ اگر انھیں یا ان کے بیٹوں کو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار انٹلی جنس ادارے ہوں گے۔ انھوں نے کہا یہ وہ ذاتی باتیں ہیں جو میں نے گذشتہ 6 سال میں نہیں کیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ (انٹلی جنس ادارے) کہہ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت سے دست بردار ہوجائیں، قومی حقوق سے دست بردار ہوجائیں،اپنے نظریات سے دست بردار ہوجائیں،غیر جمہوری قوتوں پر تنقید نہ کریں، ا?ئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات چھوڑ دیں۔

انھوں نے جرات مندانہ لہجے میں کہا مجھے کہا جارہا ہے کہ جو ہم کر رہے ہیں اس پر آنکھیں بند کرلیں، میں نہیں کرسکتا بالکل بھی نہیں کرسکتا چاہئے میری جان چلی جائے میری جان اتنی عزیز نہیں ہے۔مجھے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور اپنی قوم عزیز ہیں، مجھے سیاست اور عوام عزیز ہیں۔

انھوں نے مزید کہا مجھے اشارے مل رہے ہیں، مجھے پیغامات مل رہے ہیں۔ میں اس فلور پر رکارڈ میں لانا چاہتا ہوں مجھے کچھ ہوا کوئی بات نہیں، میرے بچوں کو کچھ ہوا میرے خاندان کو کچھ ہوا کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن یہ گمنام کھاتے میں نہ ہو، اس کے ذمہ دار دو انٹیلی جنس دارے (ایم آئی اور آئی ایس آئی) ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے اپنی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں لیکن آپ گواہ رہیں کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار دو انٹلی جنس ادارے ہوں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں