مقبوضہ بلوچستان کے ضلع نوشکی سے پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار نصیب اللہ بادینی کے لواحقین کا کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے کیمپ آمد، والدہ نے بیٹے کی بازیابی کی اپیل کی ہے۔
جبری گمشدگی کے شکار نصیب اللہ کے والدہ کے مطابق 7 سال قبل نصیب اللہ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا طویل انتظار کے باوجود بیٹے کو منظرے عام پر نہیں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی عدالتیں انصاف فراہم کریں۔انہوں نے کہا کہ نصیب اللہ بارہویں جماعت کا طالب علم تھا اپنے پڑھائی میں مصروف رہتا اگر اس پر کوئی الزام ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے
نصیب اللہ بادینی کو 2014 میں فورسز نے نوشکی سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جس کے بعد وہ لاپتہ ہے۔
بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں آئے روز اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گذشتہ ایک دھائی سے زائد عرصہ سے بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اواز اٹھارہی ہے
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج لاپتہ افراد کی قربانیوں کے تسلسل کی تاریخ جذبہ پرامن جدوجہد سے سرشار متوالے اپنے خون اور اپنے نازک جسم پر سہے صعوبتوں اور دشمن کی وحشناک اذیتوں سے لکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کل کوئی مورخ بلوچ قوم کی قربانیوں کی تاریخ پنوں پر رقم کرے یا نہ کرے دنیا کی طاقتور میڈیا کی بلوچ شہداء کے گرتے لہو کا ہر قطرہ ایک تاریخ رقم کرریے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ اسیران کی نرم و نازک جسم پر وحشت ناک اذتیں خود تاریخی ثبوت کے طور پر پرامن جدوجہد کی تاریخ کو بیان کریں گے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ چند مراعات کی خاطر مادر وطن کا سودا کرنے والوں کی مستقبل تاریک ہونا شروع ہوگیا ہے اور یہ بہاریوں کی طرح لاوارث پناہ گزین کیمپوں میں پڑے رہیں گے۔