پاکستان میں جہاں جہاں عوامی آگہی اور سیاسی سوچ میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ اپنی برابری،بنیادی حقوق اور انصاف کیلئے آوازبلند کرنے لگتے ہیں تووہاں عسکری اسٹیبلشمنٹ اپنی مذہبی شدت پسندانہ اور طالبانائزیشن کارڈ کھیلنا شروع کردیتا ہے۔تاکہ عوامی آگہی، برابری کے بنیادی حقوق، انصاف کے مطالبے اور ریاست اور ان کے اداروں پراٹھنے والے سوالوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے پُرامن ماحول کو پراگندہ اور اپنی حاکمیت کو چلاتا رہے۔
یہ بالکل ایک حقیقت ہے کہ جہاں بھی عوامی آگہی میں اضافہ ہوتا ہے وہاں عسکری اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں حرام ہونے لگتی ہیں۔اور وہ عوامی آگہی کواپنی حاکمیت کیلئے ایک خطرہ قرار دیکر اپنی ستر سالوں سے جاری بادشاہت کو دوام دینے کی تگ و دو میں لگتی ہے۔
مذہبی شدت پسندی اور دہشتگردی پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ایک ایسی کارڈ ہے جس کے بل بوتے پر سیکورٹی کے نام پر پوری دنیا سے فنڈز اکھٹا کرتا ہے۔دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ پاکستان مذہبی شدت پسند اور دہشتگردی کی ایک نرسری ہے۔جہاں پاک آرمی اور آئی ایس آئی مذہبی شدت پسند اور دہشتگرد قوتیں پروان چھڑاتی ہیں اور پھر انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان جو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے۔ وہاں گذشتہ چھ سات سالوں سے عوامی آگہی اور سیاسی سوچ میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگ اپنی برابری کے بنیادی حقوق اور انصاف کیلئے آواز ابلند کرنے لگے ہیں اورایک نئی ایک سوچ پنپ رہی ہے۔پاکستانی حکومت اور عسکری اسٹیبلشمنٹ پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ان کی بنیادی حقوق پرڈھاکا ڈالا جارہا ہے۔
مقامی لوگوں کی زمینوں پرپاک فوج کی جانب سے غیر قانونی اور طاقت کے زور پر قبضے کے خاتمے اورگلگت بلتستان کومکمل صوبہ یاداخلی خودمختاری دینے جیسے عوامی مطالبات سے اسلام آباد اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کوآج کل پریشانی کا سامنا ہے۔
گذشتہ روز 7 جولائی کوگلگت بلتسان میں ایک مفروردہشتگرد کمانڈرحبیب الرحمان اوراس کے ساتھیوں کی ”کھلی کچہری“ کی ایک ویڈیو سامنے آگئی ہے۔جس میں وہ مکمل طور پر مسلح ہیں اوربغیر کسی خوف کے ایک عوامی مقام پر موجود ہیں۔ جس سے یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ پاک فوج نے اس پر امن علاقے میں پھر سے اپنی مذہبی شدت پسندی و دہشتگردانہ کارڈکھیلنے کا آغاز کردیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کمانڈر حبیب الرحمن اور اس کے ساتھیوں پر 2013 میں نانگا پربت میں دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کو قتل کرنے اوردیگر شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
گلگت بلتستان کے حکام نے سنہ 2013 میں کمانڈر حبیب الرحمان کو دو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا تاہم سال 2015 میں وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گلگت کی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اوران کے تیسرے ساتھی جیل سے فرار ہونے میں ناکام رہے تھے۔
حکام کے مطابق کمانڈر حبیب الرحمان جیل سے فرار ہونے کے بعد روپوش ہوگئے تھے مگر 7 جولائی کو انھوں نے ضلع دیامیر کے بابو سر ٹاپ کے پولو گراونڈ میں ایک ’کھلی کچہری‘ منعقد کی اور انھیں سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں انٹرویو دیتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک مقامی صحافی صحافی عیسیٰ خان نے کمانڈر حبیب الرحمان کی ویڈیو اپنی فیس بک پیج کر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آج”مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان“ کی جانب سے بابوسر پولو گراؤنڈ میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا۔ جہاں صبح سے لیکر شام تک دینی، دنیاوی، معاشی، معاشرتی، ملکی اور غیر ملکی مسائل پر بات چیت کی گئی۔اور”مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان“کے نائب امیر کمانڈر حبیب الرحمٰن اخوندہ نے 4 نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت 20 فروری 2019 کو کھنبری گچھار کے مقام پر ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہم امن کے داعی ہیں اور گلگت بلتستان میں دیرپا امن چاہتے ہیں۔
میڈیا ذرائع بتاتے ہیں کہ شدت پسند کمانڈرحبیب الرحمان کی منظر عام پر آنا اور کھلی کچہری کرنے پرگلگت بلتستان پولیس کے ترجمان مبارک جان سے رابطہ کیاگیا لیکن اس نے اس حوالے سے اپنا موقف دینے سے انکار کردیا۔
گلگت بلتستان پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق کمانڈر حبیب الرحمن کے گروپ کا سربراہ مولوی عبدالحمید نامی شخص ہے۔ یہ گروپ خود کو’’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘‘کہلاتا ہے۔ اس گروپ کے بہت سے لوگوں نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
ایک اور پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’پتا نہیں یہ اچانک کہاں سے نکل آئے ہیں۔ مگر یہ اب کوئی خطرہ نہیں رہے ہیں۔ ان کا نیٹ ورک کافی سال پہلے توڑ دیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بچے کچے لوگوں کا پیچھا کر رہے ہیں، ان کو جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔‘
بابو سر ٹاپ کے کئی رہائشیوں نے بتایا کہ کمانڈر حبیب الرحمن کو جو کہ ضلع چالاس کے رہائشی ہیں، گذشتہ برسوں میں نہیں دیکھا گیا تھا لیکن وہ بدھ کو اپنے کئی مسلح ساتھیوں کے ہمراہ جن میں سے کئی ایک نے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، اچانک بابو سر ٹاپ کے پولو گراونڈ میں پہنچ گئے جہاں پر وہ کافی دیر تک اپنے ساتھیوں سے بات چیت کرتے رہے۔
عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر کئی لوگوں نے ان سے ملاقات کی۔ موقعے پر موجود ایک شہری کا کہنا تھا کہ وہ کمانڈر حبیب الرحمن کو اس طرح منظر عام پر دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے ہیں۔
ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ کمانڈر حبیب الرحمن نے کافی وقت پولو گراونڈ میں گزارا۔ گراؤنڈ میں ان کے ساتھیوں کے علاوہ کافی تعداد میں عام لوگ بھی جمع تھے۔
مقامی صحافی کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو انٹرویومیں ’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘ کے نائب امیر کمانڈر حبیب الرحمٰن اخوندہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت 20 فروری 2019 کو کھنبری گچھار کے مقام پر ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
ویڈیو میں عیسیٰ خان اپنے مہمان سے ان کا تعارف پوچھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نام کمانڈر حبیب الرحمن ہے اور میں گلگت بلتستان کا نائب امیر ہوں۔ میرے ساتھ کمانڈر نصر الدین، مولانا مسعود الحق اور کمانڈر لیاقت خان موجود ہیں‘۔
ویڈیو میں جن کا وہ تعارف کرواتے ہیں انھوں نے اپنی شناخت نہیں چھپائی جبکہ ان کے باقی مسلح ساتھیوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے۔ ویڈیو میں حبیب الرحمن ایک بار پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت اور حساس اداروں کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تھا۔
ان میں کمانڈر حبیب الرحمن اور کمانڈر لیاقت خان چند سال پہلے گلگت سٹی میں موجود سابقہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے جبکہ ان کے ایک ساتھی پنجاب کی ایک جیل میں فوجی عدالت میں مقدمے کے منتظر ہیں۔
کمانڈر حبیب الرحمن کو گرفتاری کے وقت حکام نے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی حدود میں مسافر بس پر حملے کا مرتکب بھی قرار دیا تھا۔ مسافر بس کو لالو سر کے مقام پر روک کر شناخت کے بعد 20 شیعہ مسافروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
کمانڈر لیاقت خان کے حوالے سے بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ نانگا پربت واقعے کے علاوہ شدت پسندی کے دیگر واقعات میں بھی ملوث ہیں جن میں مارے جانے والوں میں پولیس کے ایک ایس ایس پی، فوج کے کرنل اور کیپٹین شامل ہیں۔
کمانڈر حبیب الرحمن یا ان کے گروپ پر ضلع دیامیر میں طالبات کا سکول جلانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان کے ایک صحافی کے مطابق بظاہر یہ تحریک طالبان پاکستان سے اپنا کوئی تعلق نہیں بتاتے تاہم طالبان افغانستان کے حوالے سے ’نرم گوشہ رکھنے کے علاوہ ان کی پیروی بھی کرتے ہیں‘۔
کمانڈر حبیب الرحمان یا”مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان“ کی سات سال بعدمنظر عام پر آنااوراس حوالے سے مقامی حکومت وانتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی موقف دینے سے انکار کرنا خود اس بات کی ثبوت ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پلان کیا گیا یہ ایک فل پلان کھلی کچہری اورویڈیو انٹرویو تھاتاکہ اس شدت پسنداور دہشتگرد گروہ کو پھر سے عوام پر مسلط کرکے ان کی سیاسی، سماجی وبنیادی حقوق کے مطالبات کا گلا گھونٹا جائے۔
مقامی لوگوں میں کمانڈر حبیب الرحمان اور اس کے ساتھویں کی سات سال بعد واپسی نے ایک خوف و ہراس کے ماحول کو جنم دیاہے۔اور لوگ کہہ رہے کیں طالبان علاقے میں واپس آگئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق ریاستی ادارے سات آٹھ سال پہلے کا مذہبی شدت پسندی و دہشتگردانہ کھیل کھیل رہے ہیں تاکہ ہم اپنی داخلی خودمختاری اور مکمل صوبے کے مطالبات سمیت دیگر بنیادی و برابری کے حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈر حبیب الرحمان اور اس کے ساتھیوں کی اسلحوں کے ساتھ کھلے عام منظر عام پر آنااور کھلی کچہری کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انہیں عسکری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مکمل طور پر چھوٹ دیکر گلگت بلتستان کے عوام پر مسلط کردیاگیا ہے۔
واضع رہے کہ پاکستانی فوج کے اس طرح کے منصوبوں کے پیچھے دومقاصد نظر آتے ہیں۔ ایک وہ اپنی ستر سالہ بادشاہت کو برقرار رکھ سکے اور دوسراسورش زدہ علاقوں میں امن قائم کرنے اورسیکورٹی کے نام پر دنیا اور اپنی سول حکومت سے فنڈ اکھٹا کرسکے۔
یہ بات بالکل واضع ہے کہ اگر دو تین سالوں میں گلگت بلتستان میں ”مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان“ نے اپنی سرگرمیاں بڑھائیں اورعلاقے میں سورش وامن و امان کی صورتحال گھمبیر ہوگئی تو پھر پاک فوج علاقے میں آپریشن کے نام پر حکومت سے بھاری بجٹ لیکرنہ صرف مقامی لوگوں کے گھر بار، مال مویشیاں لوٹتی ہے بلکہ زمینوں پر قبضے کا دائرہ کار بھی بڑھا تا ہے۔ کیونکہ فوجی آپریشزمیں اکثر لوگ نقل مقامی کرتے ہیں اور علاقے مکمل فوج کے کنٹرول میں آجاتے ہیں جہاں وہ جو جی میں آئے کرتے ہیں کیونکہ میڈیا بھی اسکی کنٹرول میں ہوتا ہے۔
خطے میں سیکورٹی معاملات پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کی جانب سے گلگت بلتستان کوپھر سے دہشتگرد اورمسلح مذہبی شدت پسندوں کے حوالے کرنے پر شدید خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا پر طالبان کے بڑھتے کنٹرول کے سبب خطے میں خصوصاً کشمیر میں عسکریت پسندی کو مزید تقویت ملے گی۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر افغان طالبان اسی طرح اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے اور مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیں گے تو بھارتی کشمیر میں بھی مسلح عسکریت پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو ماہرین کے یہ خدشات بالکل درست ہیں کہ طالبان اگر افغانستان پر کنٹرول حاصل کر پائینگے تو کشمیر میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ افغان طالبان کو مکمل طور پر پاک فوج کی سپورٹ حاصل ہے اور اسی کی سپورٹ سے وہ تیزی کے ساتھ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر رہی ہے۔
گلگت بلتستان میں پھر سے دہشتگر داورمسلح مذہبی شدت پسندوں کی کھلے عام منظر عام پر آنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاک فوج پہلے سے بھارت سے منسلک علاقوں میں طالبانائزیشن نیٹ ورک کو مضبوط کررہا ہے تاکہ بھارت کو غیر مستحکم کیا جاسکے۔
گلگت بلتستان سمیت وزیر ستان اور دیگر علاقوں میں افغان طالبان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جنہیں لازماً پاک فوج ایک منصوبے کے تحت ایڈ جسٹ کررہا ہے تاکہ انہیں بعد ازاں اپنی مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔
نئی دہلی میں سکیورٹی امور کی ماہر آکانکشا نارائن کہتی ہیں کہ سن 1989 میں افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد، ماضی میں سوویت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین، چیچنیا، کشمیر اور مشرق وسطیٰ جیسے دیگر غیرملکی مسلح تنازعات میں شریک ہو گئے تھے۔ اس مرتبہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد موجودہ غیرملکی تنازعات میں اِن جنگجوؤں کی شمولیت کے امکانات ہیں۔ اس لیے بھارت کو کشمیر میں عسکریت پسندوں کو شہ ملنے کے حوالے سے خدشہ ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں میں بھارتی حکام کی طرف سے کشمیر میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے سخت اور بہتر اقدامات کئے گئے ہیں۔جس سے علاقے میں مسلح عسکریت پسندی ایک اندازے کے مطابق کم ترین سطح پرپہنچ گئی ہے اور عسکریت پسندفرار ہوگئے ہیں لیکن اب افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سے پاکستان سے منسلک بھارت کے کشمیر سمیت تمام علاقے دہشتگردانہ کارروئیوں کا گڑھ بن جائیں گے اور گلگت بلتستان میں مجاہدین کا منظر عام پر آنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔