بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب نے بی بی سی اردو کی جانب سے پاکستان حکومت سے مذکرات کے حوالے سے بھیجے گئے تحریری سوالات کے نامعلوم مقام سے دیئے گئے جوابات میں کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے دعوؤں کو کسی پیشرفت کی صورت میں نہیں دیکھتے بلکہ یہ کسی بڑے نوعیت کے قتلِ عام کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ بلوچستان میں جب بھی کسی بڑے نوعیت کے آپریشن کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس سے پہلے کسی کٹھ پتلی سیاست دان کو مذاکرات کا دعوت نامہ یا عام معافی کی باتوں کی پٹیاں پڑھا کر بھیجا جاتا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ قتل و غارت مجبور ہو کر کی گئی۔
بشیر زیب کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے دعوؤں کو کسی پیش رفت کی صورت میں نہیں دیکھتے بلکہ یہ کسی بڑے نوعیت کے قتلِ عام کا پیش خیمہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات برابر کی طاقتوں کے مابین ہوتے ہیں اب تک پاکستان ہمیں برابر کے طاقت کے طور پر نہیں دیکھتا، اس لیے جب ان کے زبان سے لفظ مذاکرات نکلتا ہے تو ان کے ذہن میں قیمت پوچھ کر نوجوانوں سے ہتھیار پھینکوانے کا خیال ہوتا ہے، وہ بیوپاری کی طرح قیمت پر بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے لیے یہ بقا و فنا کا مسئلہ ہے، ایسی صورت میں مذاکرات کیسے؟
انہوں نے کہا کہ ’جب بھی ہمیں اور ہماری قوت کو برابری کے بنیاد پر تسلیم کیا گیا تو ہم انسانی جانوں کو بچانے کے لیے فوج کو بلوچستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دینے کے لیے کسی بین الاقوامی ضامن کی موجودگی میں مذاکرات کر سکتے ہیں۔‘
بلوچ رہنما بشیر زیب کا کہنا ہے کہ آج کے حالات 1990 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں کیونکہ آج بلوچ تحریک کسی ہمسایہ ملک پر انحصار نہیں کرتی۔ یقیناً جنگ سے متاثرہ بلوچ مہاجرین افغانستان و ایران کے ان بلوچ علاقوں میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں جنھیں وہ اپنا وطن تصور کرتے ہیں لیکن بلوچ مزاحمت کار و مزاحمتی قیادت رواں تحریک کو بلوچستان سے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’افغانستان میں چاہے جس کی بھی حکومت ہو، رواں تحریک تسلسل توڑے بغیر جاری رہے گی، بلوچ تحریک و طالبان کے مابین موضوعی و نظریاتی اختلافات لازم موجود ہیں لیکن کبھی بھی ان کی نوعیت معروضی نہیں رہی۔ ہاں البتہ بلوچ سرزمین پر آ کر بلوچ قومی مفادات کے خلاف اگر دنیا کی کوئی بھی قوت متحرک ہوتی ہے تو بلوچ بخوبی مزاحمت کرنا جانتے ہیں۔‘