افغانستان کی صورت حال کا تاریخی پس منظر میں مختصر جائزہ,نیوز انٹرونشن خصوصی رپورٹ

0
721

افغانستان جس کی تاریخ صدیوں پہ محیط ہے، وہ چاہے ریاست پکتیا کا دور ہو، غزنوی دور ہو، ہوتک ایمپائرز ہوں یا ابدالی دور حکومت۔ قدیم ریاستی تاریخ کا وارث ہونے کے ناتے انہیں یقیناً آنے والے دنوں کا اادراک تھا یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت نے 30 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یہی نہیں بلکہ 17 جولائی 1973 کو افغانستان کے اس وقت کے صدر سردار محمد داؤد خان نے اپنے پہلے ریڈیو خطاب میں کہا کہ”پختونستان ہمارے آباء و اجداد کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ صرف پختونوں کی خواہشات کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے۔ دنیا جان لے کہ افغانستان کا دنیا میں کسی ملک کے ساتھ کوئی تنازع نہیں سوائے پاکستان کے اور افغانستان اس تنازعے کے حل کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔“

صدر داؤد خان کی اس تقریر کے پاکستان کے اس وقت کے صدر ذولفقار علی بھٹو نے افغان سرحد پر فوجی دستے تعینات کرنے کا حکم دیا اور اسی ماہ انہوں نے وزارت خارجہ میں “افغان سیل” قائم کرایا اور جنرل نصیر اللہ بابر کو افغان امور کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ جو علاقے انگریز استعمار نے افغانوں کی مرضی کے خلاف ان سے چھین لیا جسے حرفِ عام میں ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے انہیں بعد اپنی تشکیل کردہ نوزائیدہ ریاست پاکستان کے حوالے کیا گیا، یہاں بھی انگریزوں نے افغانوں کی مرضی کے برخلاف یہ اقدام اٹھایا۔ یہ ایک غیر فطری اور غیر قانونی تقسیم تھی اسی لیے افغان قوم اس تقسیم کے خلااف روز اول سے مزاحمت کررہے ہیں۔ انگریزوں نے افغان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے جو اقدامات کیے اس کی وجہ سے آج تک لگ بھگ پچاس لاکھ افغان اپنے لہو کا نذرانہ دے چکے ہیں، اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود بھی افغان قوم ثابت قدمی سے منزل کی جانب رواں ہے۔ پاکستان جسے انگریزوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے معرض وجود میں لایا۔ پاکستان بنانے کا بنیادی مقصد سوشلسٹ انقلاب کو پھیلنے سے روکنا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو ان کی یہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب ثابت ہوا۔ 1955ء میں جب سویت یونین نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو اسے روکنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں۔

اور یہاں انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی گئی۔ ویسے تو انگریزوں نے افغان سیکولر سماج کو اپنے نوآبادیاتی دور میں مسخ کرنے کی پالیسی بنائی تھی جہاں سے انہوں نے افغانوں ملاہیت کو فروغ دینا شروع کیا جس کے ثمرات انہیں سویت یونین کے خلاف حاصل ہوگئے۔ 1979ء میں مجاہدین کے نام سے جو گروہ پاکستان، امریکہ اور اس کے اتحادیوں بالخصوص سعودی حکومت کی اشتراک سے قائم ہوا تھا، اس کی بیخ کنی کے لیے جب سویت یونین نے افغانستان حکومت کی مدد کی تو امریکہ نے پاکستان سے افرادی قوت اور انہیں تربیت دینے کے لیے مدارس کا جال بچایا اور سعودی حکومت انہیں مالی امداد دیتا رہا جب کہ عسکری سازوسامان نے کے لیے امریکہ نے اپنے پر پھیلائے۔ انہی دنوں پاکستان اور امریکہ کے مابین ایک معاہدہ بھی ہوا تھا جس میں افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے میں دونوں طاقتیں متفق تھے۔ پاکستان کو اتنی بڑی سرزمین جو معدنیا ت کی دولت سے لیس ہو، اور وہ حصے جو ڈیورنڈ لائن کی تقسیم سے افغانستان سے چھین لیے گئے ہوں ملنے کی امید کسی معجزے سے کم نہیں تھے۔ عجیب بات ہے امریکہ، سعودی عرب اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ اس غیر فطری ریاست(پاکستان) اپنے وجود کو سنبھالنے میں ناکام رہا اور چوبیس(24)سال بعد بنگالیوں نے ان سے اپنی آزادی حاصل کی جس میں تیس لاکھ بنگالی شہید اور لاکھوں بنگالیوں عورتوں کی عصمت دری ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی بنگالیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور پاکستان کے نوے ہزار فوجی تین ہزار انڈین آرمی کے آگے سرنڈر ہوجاتے ہیں۔ الغرض ہم آتے ہیں سویت دور کی جانب۔،اس دوران مجاہدین جنہیں پاکستان نے نہ صرف تربیتی مراکز فراہم کیے بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد پاکستان کے عسکری اداروں اور مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کی تھی جو پاکستان میں قائم تھے۔مال وو زر اور عسکری سازوسامان کی کمی پوری کرنے کے لیے سعودیہ سلفیت کو فروغ دینے کے لیے سرگرم عمل تھا جب کہ امریکہ سوشلسٹ تحریک کو روکنے کے لیے متحرک ہوچکا تھا۔دس، بارہ سالہ اس جنگ میں افغان قوم کے فرزندوں کا لہو بہتا رہا وہ چاہے افغانستان میں بسنے والے مذہبی افراد ہوں یا عفریت کے خلاف متحرک افغان قوم پرست۔ پاکستان نے افغانوں کے لہو بہانے کی ہرممکن کوشش کی جس میں وہ آج تک کامیاب نظر آرہا ہے۔

ایک زمانے میں وہ مجاہدین کی تحریک کے نام پر یہ گھناؤنا کھیل کھیل رہا تھا تو، سویت یونین کے جانے کے بعد طالبان کے نام پر یہ کھیل شروع ہوچکا تھا۔ خون بہاتے بہاتے افغان حکومت کافی کمزور ہوچکا تھا لہذا ایک دن پاکستان کے عسکری اداروں کی ہمراہ داری میں طالبان نے کابل خون کی ہولی کھیل کر اور ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرکے جن میں افغان قوم پرست رہنما اور افغانستان کے اس وقت کے صدر ڈاکٹر نجیب بھی شامل تھا جسے انتہائی بے دردی سے شہید کیاگیا۔

ڈاکٹر نجیب کی شہادت کے بعد افغانستان پہ پاکستان کی تشکیل کردہ طالبان کی حکومت قائم ہوگئی، لیکن اس دوران بھی افغان قوم نے پاکستانی پراکسیوں (طالبان) کے خلاف احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں جدوجہد کرتے رہے۔ 1992ء میں طالبان حکومت کے قیام سے اپنے انجام 2001ء افغانستان کے اکثر علاقوں کو اپنا مفتوح بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن چند ایک علاقے جن میں پنجشیر سرفہرست کے طالبان کے خلااف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے اور آخر دم تک پاکستان افغانستان پہ طالبان کے ذریعے مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
ستمبر2001ء میں دنیا کے حالات اس وقت بدل گئے جب امریکہ میں ٹوئن ٹاورز پہ طیاروں کے ذریعے حملہ کیا گیا۔ امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری القائدہ کے سرتونپا، وہی القائدہ جسے امریکہ نے قائم کرکے سویت یونین کے خلاف استعمال کیا تھا۔
اس دوران چونکہ سویت یونین کا شیرازہ بکھر چکاتھا لہذا یہ گمان ہوتا ہے کہ امریکہ کو وسطی ایشائی ریاستوں تک رسائی کی اشد ضرورت تھی تاکہ دوبارہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہوجائے جس سے سویت یونین واپس معرض وجود میں آسکے۔ وسطی ایشائی ریاستیں معدنی دولت سے مالا مال ہیں، اس کے علاوہ اس خطے کا داروغہ بننے کے بعد امریکہ روس، چائنا سمیت لگ بھگ پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کے اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنانے میں کامیاب ہوجاتا۔
اس دوران جب امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا اس کے بعد بھی آج تک پاکستان میں نہ صرف عسکری تربیت گاہ موجود ہیں بلکہ ریکروٹ منٹ کے لیے مدارس کے جال نے مزید وسعت اختیار کیا۔ اور آئے روز طالبان کی لاشیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں پہنچتی رہیں یا وہاں ان کے خاندان کے افراد نے ان کے مرنے پہ ماتم کیا۔ پاکستان کا یہ دوغلہ پن جس سے دنیاواقفیت بھی رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے اس غیر فطری ریاست کے خلاف وہ اقدامات نہیں اٹھائیں بلکہ بش دور حکومت سے لے کرڈونلڈ ٹرمپ کے عہد تک ان کی معاشی اور عسکری مدد کے لیے امریکہ کمربستہ رہا۔


بیس سالہ جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جب افغانستان سے انخلاء کا عندیہ دیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ طالبان کی عسکری کارروائیوں میں روز بروز تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور اب تک ایک بڑے علاقے کا جزوی کنٹرول بھی انہوں نے سنبھال لیا ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم بلوچستان سے معلق سرحدکی بعد کریں تو بالخصوص جب سپین بولدک پہ طالبان نے قبضہ کیا تو افغان فورسزنے دوبارہ ان کے خلاف متحرک کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو بقول امراللہ صالح کہ پاکستان نے افغانستان پہ فضائی حملوں کی دھمکی دی ہے۔

کچھ دن بعد جب سپین بولدک پہ دوبارہ افغان حکومت نے تسلط حاصل کیا تو پاکستان نے نہ صرف طالبان زخمیوں کے علاج کے لیے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی بلکہ اس دوران بقول صدر اشرف غنی کہ پاکستان سے دس ہزار طالبان افغانستان میں داخل ہوچکے ہیں۔ یعنی وہ طالبان زخمیوں اور مرنے والوں کی لاشوں کو اپنے علاقوں میں دفناتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ مرنے والوں کو ان کے آبائی علاقوں میں دفنانے کا بندوبست کیا جاتاہے جن کی اکثریت کا تعلق بلوچستان کے پشتون قبائل سے ہیں۔ یعنی دونوں طرف سے یہ بدبخت قوم مررہا ہے اور انہیں آگ کی اس بھٹی میں جھونکنے والا افغانستان کو ہڑپنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ابھی حال ہی میں افغان حکومت نے انتالیس لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کیا جن کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے تھا، یہ تمام ثبوت دنیا کے سامنے عیاں ہیں وہ چاہے افغانستان کے خلاف استعمال ہونے والے مدارس ہوں، ڈیورنڈ لائن کے اس پار بسنے والے افغان اور دیگر اقوام جنہیں مذہب کے نام پہ قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے لیکن دنیا پھر بھی افغانوں کی مدد کرنے سے کترارہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا پاکستان جیسے ناسور کو اس دھرتی سے مٹا دیتی تاکہ دنیا میں امن و شانتی کا دور شروع ہوسکے، لیکن دنیا نے آنکھیں ایسی بندھ کی ہوئی ہیں جیسے وہ پاکستان کے مامے چاچے ہوں اور افغان لاکھوں کے حساب میں آتش نمرود میں جھونکے جائیں انہیں اس سے سروکار نہیں۔ کاش کہ دنیا 1947میں افغان قوم کی سوچ کو اپنا کے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا تو آج نہ شام میں لشکرطیبہ کا مولانا عبدالعزیز کے نام سے عسکری ونگ قائم ہوتا، نہ کشمیر جل رہا ہوتا، نہ فلسطین راکھ کا ڈیر بن جاتا، نہ بنگالیوں کے تیس لاکھ افراد کا لہوبہتا، نہ بلوچستان کے ہرگھر میں روز ماتم ہوتا نہ ہی افغان آئے روز قتل کیے جارہے ہوتے۔۔۔اور نہ ہی دنیا بالخصوص یہ خطہ جنگ کا گہوراہ بن جاتا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں