افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان تیزی کے ساتھ اپنی پُر تشدد اور دہشتگردانہ کارروائیوں کے ذریعے مختلف علاقوں پرقبضہ کر رہے ہیں۔
اگرچہ افغان فورسز اور دیگر قبائلی ملیشیا ئیں عوام اور ملک کی دفاع میں طالبان کے سامنے صف آرا ء ہیں لیکن افغان حکومت کی جانب سے ملک کی دور دراز علاقوں میں افغان فورسز کو جنگی سازوسامان کی عدم رسائی کی وجہ سے طالبان بغیر کسی مزاحمت کے بعض علاقوں پر قابض ہورہے ہیں اور یہ صورتحال ا نتہائی تشویشناک ہے۔
طالبان انسانی حقوق اورجنگی قوانین کومکمل طور پامال کرکے اپنے ناقدین اورمخالفین کو غیر انسانی طریقوں سے قتل کر رہے ہیں جن میں صحافی، آرٹسٹ،اساتذہ سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور اسپیشل فورسز کے اعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈوزشامل ہیں۔
طالبان کی تیزی کے ساتھ پیش قدمی اور 80 فیصدسے علاقوں پر قبضے کے دعوؤں کے پیش نظرسینکڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرکے ازبکستان، بلوچستان،پاکستان اورایران میں پناہ لے رہے ہیں جبکہ کئی افراد کابل اور دیگر بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں کیونکہ وہاں افغان فورسز کی بہتر عملداری موجود ہے۔
امریکا سمیت یورپی یونین طالبان کی بزور طاقت افغانستان پر قبضے کو ایک غیر آئینی اور جابرانہ اقدام قرار دے رہے ہیں اورطاقت کے ذریعے قائم کئے جانے والے حکومت کو تسلیم بھی نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن عالمی برادری کے اس تمام تر دباؤ کے باجود طالبان طاقت کے نشے میں خون ریزی کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوناچاہتے ہیں۔
قطر کے دارلحکومت دوحہ میں امریکا کے ساتھ افغان امن مذاکرات کے دوران طالبان یہ مان چکے ہیں کہ وہ جنگ بندی کرکے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اشتراک اقتدارپر لائحہ عمل طے کرینگے لیکن جب غیر ملکی افواج کا نخلا ہوگیا تو ہ اپنی پُر تشدد اوردہشتگردانہ حکمت عملی کے طور پر سامنے آگئے اور اس طرح ان کا دو غلا پن دنیا نے دیکھ لیاکس طرح طالبان نے مذاکرات کے نام پر امریکا سمیت پوری دنیا دھوکہ دیدیا۔
بعض بین الاقوامی ذمہ دار ذرائع یہ تصدیق کرچکے ہیں کہ طالبان کی تیزی کے ساتھ مختلف علاقوں تک پیش قدمی اور قبضے کے پیچھے مکمل طور پر پاکستان کی بری فوج اور فضائیہ کاہاتھ ہے۔لیکن پاکستان ہر بار کی طرح اس کی تردید کرتا آرہا ہے۔اس کے باوجود افغان انٹیلی جنس اور سی آئی اے اپنے کئی رپورٹوں میں یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ طالبان کی ڈور پاکستان کے ہاتھ میں ہے اورپاکستان چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کو اپنا ایک صوبہ بنائے۔
پہلے تو طالبان نے افغانستان کے اضلاع پر قبضے کا عمل شروع کیا اور پھر جب عالمی برادری نے اس عمل کو دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی صوبے کے مرکز پر قبضہ نہیں کرینگے لیکن ہر بار بار کی طرح وہ اپنے وعدے سے مکرگئے۔اور انہوں نے اب تک پانچ صوبائی دارلحکومتوں قندھار،قندوز، نمروز،سرپل اور شبر پر بھی قبضہ کرلیا ہے جو اس کی طاقت کے پیچھے اصل ہاتھ ”پاکستان“کی طرف اشارہ کرتاہے کیونکہ باوثوق ذرائع کہتے ہیں کہ طالبان کی پوری قیادت کوئٹہ اور کراچی سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں فوج و انٹیلی جنس اداروں کے زیرنگرانی میں قیام پذیر ہے اور وہاں سے افغانستان پر قبضے اورغیر انسانی و دہشتگردانہ کارروائیوں کی ہدایات جاری کئے جارہے ہیں۔
افغان قیادت برملا اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں جنگجوؤں کو افغانستان بھیجا گیا ہے۔اور اس بات میں بالکل دورائے نہیں کیونکہ گذشتہ روز ایران حکومت اور شیعہ مسلک کیخلاف لڑنے والی پاکستان کی سنی مذہبی گروہ جیش العدل کے سینکڑوں جنگجوؤں کو جدید جنگی اسلحوں کے ساتھ بلوچستان سے ملحق بارڈر کے ذریعے طالبان کی مدد کیلئے افغانستان بھیج دیا گیاہے۔
داعش، القاعدہ اورپاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی)سمیت تمام مذہبی شدت پسندگروہ جنہیں پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ فنڈنگ کرتی ہے اور وہ اس کے سرمایہ اورپراکسیزہیں وہ سب ابھی افغانستان میں یکجاہ ہوگئے ہیں اور افغان عوام کیخلاف جنگ لڑرہے ہیں۔
افغانستان کی صورتحال کی گھمبیرتاکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شام، عراق، لیبیا سمیت افریقی ممالک سے داعش کے متعدد جنگجو، جو شام اور عراق میں داعش کے بکھر جانے کے بعد منتشر ہوگئے تھے اب آزاد ذرائع کے مطابق وہ سب افغانستان کا رخ کر رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان اس خطے میں دوسرا شام بننے جارہا ہے۔
عالمی مبصرین کے مطابق طالبان اور داعش ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جس طرح شام میں داعش نے اسلام کے نام اور اس کے بلندی کیلئے بے دریغ خونریزی کی،انسانیت کا قتل عام کیا، سماجی اسٹریکچر اور صدیوں پرانی انسانی تہذیب وتاریخ کومٹا دیااور ایک ایسے انسانی بحران کوجنم دیا جس کو ختم کرنے میں صدیا ں درکار ہونگی۔ اب یہی عمل افغانستا ن میں شروع کیا گیا ہے جس کے اثرات نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ پاکستان،ایران اور خاص کر بلوچستان اس سے شدید متاثر ہوگا۔
ویسے اگردیکھا جائے تو بلوچستان افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے سب سے زیادہ اس لئے متاثر ہوگا کیونکہ یہ پہلے سے ایک جنگ زدہ علاقہ ہے۔جہاں بلوچ قوم اپنی آزادی کیلئے گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی فوج کے ساتھ لڑرہی ہے۔اورپاکستانی فوج نے بلوچ تحریک آزادی کوکچلنے کیلئے مذہبی گروہو ں پر مشتمل کئی شدت پسندملیشیائیں تشکیل دیں، ڈیتھ اسکواڈ بنائے۔لیکن سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ داعش و دیگر مذہبی شدت پسند جنگجو، جو افغانستان میں آرہے ہیں ان کے لئے بلوچستان کی سرزمین افغانستا ن کی طرح جنگی اعتبار سے محفوظ اور دشمن کیخلاف ایک کامیاب جنگ کی صورت میں دیکھی جارہی ہے۔
بعض سیاسی و سماجی حلقے بلوچستان کو لیکر اسی لئے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ یہاں زیادہ تر پاکستانی فوج کی عملداری ہے اور فوج اپنی مذہبی شدت پسندوں کی طرح باہر سے آنے والے داعش و القاعدہ کو بلوچستان میں مکمل سپیس دیگا۔اگر چہ یہ عمل آگے جاکرپاکستان کی اپنی اندرونی سیکورٹی کیلئے ایک بڑا رسک ثابت ہوگا لیکن وہ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے بلوچستان کو آتش وآہن میں جھونکنے کیلئے کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔اور اس طرح بلوچستان شام ایسے مٹنے کے کگار پر پہنچے گاکیونکہ داعشی شدت پسندوں کی بربریت سے لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے اوربلوچستان یہ قیامت سہنے کی بالکل سکت نہیں رکھتا۔
٭٭٭