افغان حکومت کے خاتمے کا سبب اشرف غنی ہے، زلمے خلیل زاد

0
169

طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کرنے والے اعلیٰ امریکی عہدے دار، زلمے خلیل زاد نے الزام لگایا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی ”بے حسی”، افغان اشرافیہ کی ”مطلب پرستی” اور افغان فوجیوں کی جانب سے طالبان سے لڑنے کے عزم میں کوتاہی ایسے اسباب تھے جن کہ بنا پر اگست میں طالبان کو موقع ملا کہ وہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے ملک پر قبضہ جما لیں۔

خلیل زاد نے یہ بات بدھ کے دن واشنگٹن میں ‘کارنیگی انڈومینٹ فار انٹرنیشنل پیس’ کے تحت منعقدہ ایک مباحثے کے دوران کہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ”ہم سب حیران تھے کہ صدر غنی اس بات پر اڑے رہے کہ عہدے کی مدت پوری ہونے تک وہ اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے دوبارہ منتخب ہوئے تھے، جس میں چند افغانوں نے شرکت کی تھی”۔

انھوں نے پہلی بار یہ بات تسلیم کی کہ امریکہ اس بات کے حق میں نہیں تھا کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوں جن میں غنی جیت کر دوبارہ عہدہ سنبھالیں۔ برعکس اس کے، خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں تھا کہ ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے جسے دونوں فریق تسلیم کریں ایسے میں جب تک افغان سیاست داں اور متمدن معاشرے کے ارکان طالبان کے ساتھ کسی سیاسی تصفیہ تک پہنچیں۔

خلیل زاد نے کہا کہ غنی نے ”سب سے بڑا غلط اندازہ” یہ لگایا تھا کہ خطے سے امریکی انخلا ممکن نہیں ہو گا، چونکہ امریکی افواج اور اس کے خفیہ ادارے چین، روس، ایران اور پاکستان جیسے حکمت عملی کے حامل ملکوں کے نزدیگ رہنا چاہیں گے۔

خلیل زاد کے بقول، ”میں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ ”نہیں۔ مجھے تو انٹیلی جنس اور فوج نے کچھ اور ہی بتایا ہے”۔
افغان فوج کی طاقت

بقول ان کے، غنی نے اپنی فوج کے لڑنے کی قوت سے متعلق بھی غلط اندازہ لگایا تھا۔ جب امریکہ نے انخلا کا فیصلہ کیا تو انھوں نے خلیل زاد کو بتایا کہ ”اب میں افغان طریقے سے جنگ لڑنے کے معاملے میں آزاد ہوں۔ میں چھ مہینے کے اندر طالبان کو شکست دے دوں گا، چونکہ آپ لڑائی میں کمزوری دکھا رہے تھے”۔

یہ حقیقت کہ امریکہ کی تربیت یافتہ اور اسلحے سے لیس 300،000 سے زائد افغان سیکیورٹی افواج اور قومی پولیس محض 60،000 سے 70،000 تعداد رکھنے والے طالبان کے سامنے کھڑی نہ ہو سکیں، خلیل زاد نے کہا کہ اس کی وجہ کم ہمتی، بدعنوانی اور اگلے محاذ پر تعینات فوجیوں کے ساتھ غلط سلوک روا رکھنا تھی۔

انھوں نے کہا کہ ”اس کا سبب زیادہ تر افغانستان کا مخصوص سیاسی انداز تھا، جس پر لوگوں کو بھروسہ نہیں تھا، نہ ہی فوج کو؛ جب کہ دوسری جانب طالبان اپنی دھن کے پکے تھے”۔

خلیل زاد نے افسوس کا اظہار کیا کہ افغان اشرافیہ کا رویہ ”خود غرضانہ، مطلبی اور بدعنوان” ہو چکا تھا، یہی سبب ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ناکام ہوتے رہے۔

بقول ان کے، ”مجھے مایوسی ہے کہ جس اشرافیہ کے ساتھ ہم رابطے میں رہے، انھوں نے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتی۔ یہ ایک سنہری موقع تھا جو امریکہ کی جانب سے کی جانے والی بات چیت کی وجہ سے میسر آیا تھا”۔

خلیل زاد امریکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ طالبان کے ساتھ سمجھوتا طے کرنے پر انھیں ہدف تنقید بنایا گیا، جسے بہت سے افغانوں نے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔ ان کے امریکی اور افغان ناقدین نے ان پر الزام لگایا کہ بہت تھوڑی رعایت کے بدلے انھوں نے طالبان کو بہت ساری رعایتیں دیں۔

امریکہ اور طالبان نے فروری 2020ء میں ایک سمجھوتے پر دستخط کیے جس سے طالبان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی ضمانتوں کے عوض غیر ملکی افواج کے انخلا کا نظام الاوقات طے ہوا۔

تاہم، سمجھوتے میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ لڑائی ختم کرنے اور سیاسی تصفئے کے لیے وہ افغان حکومت اور دیگر سے مذاکرات کریں گے۔ یہ مزاکرات ستمبر 2020ء میں شروع ہوئے، لیکن افغان فوج کی جانب سے کسی خاص مزاحمت کے بغیر جب طالبان نے ملک پر قبضہ کیا، اس وقت تک یہ بات چیت شروع نہ ہو سکی۔

طالبان بغیر ایک گولی چلائے، 15 اگست 2021ء کو دارالحکومت کابل کے اندر داخل ہوئے۔

اپنے سمجھوتے کا دفاع کرتے ہوئے، خلیل زاد نے کہا کہ اگر طالبان نے اپنے وعدے پورے نہ کیے یا بین الافغان بات چیت میں پیش رفت حاصل نہ ہو پائی، تو طے شدہ طریقہ کار کے تحت انخلا کی تاریخ میں تاخیر کی لچک کا عنصر موجود تھا۔ لیکن، صدر جو بائیڈن نے فیصلہ کیا کہ اصل نظام الاوقات کی پابندی کی جائے گی۔

آگے بڑھتے ہوئے، خلیل زاد نے اس بات کی وکالت کی کہ طالبان کے ساتھ ایک دانش مندانہ سفارتی بات چیت کی جائے جس میں ایک سمجھوتا طے ہو ”جس میں ایک ‘روڈ میپ’ کا تعین ہو، جس میں ایک دوسرے پر اعتماد یا بداعتمادی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا تعین ہو کہ کس وقت کے اندر کیا کچھ ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔”

انھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں افغانستان کے بارے میں پالیسی ”غلط اطلاعات پر مبنی مباحثے” کی یرغمال بن چکی ہے، جو کہ امریکی مفادات کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ کے متعدد لوگ اس بات کے خواہاں ہیں کہ طالبان کو نقصان پہنچنا چاہئے اور ان کی حکومت گرنی چاہئے، چونکہ ”ہم انھیں شکست دینے میں ناکام رہے اور یہ بات عوام کو پسند نہیں آئی”۔

انھوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کی حکومت کی ناکامی کی صورت میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور انسانی ہمدردی کی نوعیت کی تباہی پھیلے گی، جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع ملے گا۔

انھوں نے کہا کہ سمجھوتے پر دستخط کے بعد 18 ماہ سے طالبان نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ اپنی زبان پر قائم ہیں اور انھوں نے کسی ایک امریکی کو ہلاک نہیں کیا، حالانکہ اس عرصے کے دوران افغان افواج کے دفاع کے لیے کی گئی امریکی کارروائیوں میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے، جن میں طالبان شامل تھے۔

خلیل زاد نے کہا کہ طالبان بیرونی مدد سے استفادہ کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کے شدت پسند گروپ سے نمٹ سکتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں