افغانستان: طالبان نےمیڈیا سے خواتین کو ہٹا دیا

0
50
Women gather to demand their rights under the Taliban rule during a protest in Kabul, Afghanistan, Friday, Sept. 3, 2021. As the world watches intently for clues on how the Taliban will govern, their treatment of the media will be a key indicator, along with their policies toward women. When they ruled Afghanistan between 1996-2001, they enforced a harsh interpretation of Islam, barring girls and women from schools and public life, and brutally suppressing dissent. (AP Photo/Wali Sabawoon)

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ملازمت پیشہ خواتین بالخصوص میڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہیں اور ملازمت پر واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔ یہی نہیں، کئی ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشنز نے بھی خواتین اسٹاف کو ہٹا کر اپنی اسٹافنگ اور پروگرامنگ میں رد و بدل کی ہے۔

ایسی خواتین میں کابل سے تعلق رکھنے والی صحافی مینا اکبری بھی ہیں جو طالبان کی آمد سے پہلے شمشاد ٹی وی پر روزانہ دو شوز کیا کرتی تھیں جبکہ ننگرہار سے چلنے والے نرگس نام کے ایک ریڈیو اسٹیشن کے لئے خواتین سے متعلق پروگرامنگ تیار کیا کرتی تھیں۔

مگر اب پندرہ اگست سے مینا گھر بیٹھی ہیں اور کام پر جانے سے خوفزدہ ہیں۔ نرگس ریڈیو کا شمار ان تین اسٹیشنز میں ہوتا ہے جو خواتین چلاتی رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ریڈیو اسٹیشن بند ہو چکا ہے, جبکہ باقی دو میں اسٹاف تبدیل کر دیا گیا ہے۔

گو کہ ان میں سے کسی بھی اسٹیشن کو خواتین پر پابندی کی کوئی تحریری ہدایت نہیں ملی، مگر لوگ ماضی میں طالبان حکومت کے رویے کو فراموش نہیں کر پائے ہیں۔

مینا اکبری بھی اسی وجہ سے گھر سے نہیں نکل رہیں۔ مینا کے مطابق، ان کو پہلے ہی ٹی وی پر حجاب نا پہننے، عورتوں کے حقوق کی بات کرنے اور طالبان پر تنقید کی وجہ سے دھمکیاں مل چکی ہیں۔

ننگرہار کے نرگس ریڈیو کی کئی خواتین ملازمین اس وقت روپوش ہیں ان میں سے بعض ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے ملک پر قبضے کے بعد بارہ سے اٹھارہ سال کی لڑکیوں کو گھر تک ہی محدود رہنے کی ہدایت کی ہے۔

طالبان حکومت کی نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ مہینے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین کو تب آنے دیا جائے گا جب ان کے لئے ماحول محفوظ ہوگا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ علماء اس حوالے سے ضوابط طے کریں اور خواتین کو سکھائیں کہ کس طرح وہ اپنا کام اور تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔

اس سے قبل طالبان یہ بھی کہ چکے ہیں کہ اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کئے بغیر ملک میں نجی میڈیا آزادانہ کام کرسکتا ہے لیکن اس کے بعد میڈیا کو پابند کرنے کے لئے نئی ہدایات بھی جاری کر دی گئی تھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور تشدد کے واقعات میں اضافے کہ شکایت کی ہے۔

حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اسٹیشنز میں بعض صحافیوں کو کام کر نے سے روکا بھی گیا ہے۔ ریڈیو ٹی وی افغانستان کی اینکر شبنم دوران کچھ عرصہ پہلے ہی بتا چکی ہیں کہ کس طرح ان کے ملازمت پر پہنچنے پر طالبان نے ان سے کہا کہ حکومت تبدیل ہوگئی ہے اور وہ گھر چلی جائیں۔

شبنم دوران کے مطابق ان کے پاس نا صرف ادارے کا شناختی کارڈ تھا بلکہ وہ مکمل حجاب میں بھی تھیں مگر انہیں روک کر ان کے مرد ساتھیوں کو اندر جانے دیا گیا۔

ریڈیو ٹی وی افغانستان پر ہی کام کرنے والی خدیجہ امین بھی ایسی ہی کہانی سناتی ہیں۔ خدیجہ کہتی ہیں طالبان کبھی بھی عورتوں کو کام نہیں کرنے دیں گے۔ اگر انہیں عورتوں کے کام سے کوئی اعتراض نہیں تو کیوں انہوں نے امن عمل میں ایک بھی خاتون شامل نہیں کی؟ وآئس آف امریکہ سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے وعدوں پر یقین نہیں کرتی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں