کریمہ بلوچ کی برسی: بلوچستان بھر میں ریلی ودیگر تقریبات کا انعقاد

0
240

شہید بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کی مناسبت سے بلوچستان بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

بلوچستان کے علاقے گوادر،تربت،پسنی اور خاران میں کریمہ بلوچ کی یوم شہادت کی مناسبت سے ریلی نکالی گئی اور شمعیں روشن کرکے ان کی جدوجہدکو خراج تحسین پیش کیا گیا۔جبکہ کوئٹہ میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

گوادر

گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام شہید بانک کریمہ کے پہلے یوم شہادت کی مناسبت سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

ریلی کے شرکاء نے سید ہاشمی چار راہ تک مارچ کیا اور شہید بانک کریمہ کی جدوجہد اور سیاسی نظریات کی حمایت میں نعرے لگائے۔

مقررین نے اس موقع پر کہا آج شہید بانک کریمہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے سیاسی نظریات آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

”بانک کریمہ بلوچ تحریک میں متحرک ان تمام خواتین جھدکاروں کی شکل میں زندہ ہیں جو بلوچستان اور بلوچ کے حقوق لیے جدوجہد کر رہی ہیں انھوں نے بلوچ قوم بالخصوص بلوچ خواتین کو مزاحمت کا راستہ دکھایا ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم اپنی شناخت اور اپنے وجود کی بقاء کی اس جدوجہد میں ضرور سرخرو ہوں گے۔“

انھوں نے کہا بانک کریمہ کو ہم سے صرف جسمانی طور پر ہی جدا کیا گیا ہے لیکن ان کے افکار آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

تربت

اسی طرح بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں منگل کے روز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کی مناسبت سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کے زیراہتمام تربت پریس کلب سے ریلی نکالی گئی۔

ریلی میں شریک شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور کریمہ بلوچ کی تصویریں اٹھا کر مختلف سڑکوں پر مارچ کرتے شہید فدا چوک پر مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ادیب اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ٹاسک فورس مکران کے کوارڈینیٹر غنی پرواز، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کے رکن کریم شمبے، سَہیلہ بلوچ، خلیفہ برکت، سہتی بلوچ اور دیگر نے کہا کہ بانک کریمہ، بلوچ جدوجہدکی علامت اور ایک روشن مینار ہیں جو بھٹکے ہوؤں اور مایوس لوگوں کو راہ دکھاتی اور انہیں حوصلہ دلاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو جدوجہد کریمہ بلوچ نے شروع کی تھی آج اس کے کاروان کے ہمسفر بڑھ چکے ہیں، بانک آج جدوجہدکی علامت بن چکی ہے، بلوچ خواتین بانک کریمہ کی تقلید کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

مقررین مزید کہا کہ کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی کمان اس وقت سھنبالی جب بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ لاپتہ کردیئے گئے اور تنظیم دو دھڑوں میں تقسیم ہونے لگی تھی لیکن اس باہمت لیڈر نے تنظیم کو سھنبالا اور بی ایس او کی اپنی کلاسک روایت کی رنگ میں گامزن کیا۔

مقررین نے کہا کہ جب بانک کریمہ پر مقدمہ کیا گیا تو انہیں کہیں جاکر چھپ جانے کا کہا گیا لیکن انہوں نے مادروطن سے دغا کرنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ کولواہ سے لیکر کیچ تک اور کوئٹہ سے لیکر کراچی تک جدوجہد میں اس کے نقش کف پا موجود ہیں، بذدل دشمن نے اس سے خوفزدہ ہوکر جلاوطنی میں شہید کردیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہی مزاحمت کی علامت چوک ہے جس پر آج ہم بانک کی جدوجہد کو خراج پیش کرنے اور اسے یاد کرنے اور دنیا کو بتانے اور اس کے قتل پر اپنا غم و غصہ بتانے کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں، بلوچ حقوق کے لئے ایک دفعہ پھر اکھٹے ہوئے ہیں، فلسطین میں لیلیٰ خالد اور ہمارے لئے بانک کریمہ بلوچ مثال بن چکی ہیں، ہم ریاستی غلام ہیں اور غلاموں کو سمجھنا ہوگا کہ حاکم ہمیں حقوق نہیں دیں ہمیں حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی اور انہیں چھیننا ہوگا، یہ عقیدت اور والہانہ محبت ہے کہ آج بلوچ اپنی بچیوں کے نام بانک کریمہ بلوچ کے نام پر رکھ رہی ہیں۔
دریں اثنااسی طرح ساحلی شہرپسنی میں بی ایس او کے سابق چیئر پرسن شہید بانک کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر ایک ریلی نکالی گئی ریلی۔

پسنی

پسنی پریس کلب کے سامنے سے شروع ہوئی اور مین شاہراہ سے ہوتا ہوا جڈی ہوٹل چوک پر پہنچی جہاں پر شرکاء نے شمعیں جلا کر شہید بانک کریمہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا،۔

ریلی میں خواتین اور بچے شریک تھے جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انکی نظریہ کی حمایت میں نعرے درج تھے۔

خاران

علاوہ ازیں خاران میں بھی شہید کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کی پرخواتین و بچوں اور نوجوانوں نے قاسم چوک سے لیکر پریس کلب تک ایک ریلی نکالی اورکریمہ بلوچ کی قربانی و جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔

کوئٹہ میں سیمینار

جبکہ بلوچ وومن فورم کے زیراہتمام بانک کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار منعقد کیا گیا۔

سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے معروف بلوچ دانشور دین محمد بزدار نے کہا کہ بلوچستان کو محکوم رکھ کر اس کے وسائل اور معدنیات کی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے، بلوچ وطن کو ایک اکائی کے طور تسلیم نہیں کیا گیا۔جس کی وجہ سے قومی محکومیت نے جنم لیا۔

انہوں نے کہاکہ حاکم قوت نے اپنی لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھانے پر طاقت کا استعمال کیا اور ایک خوف کی فضاء پیدا کی بلوچ جدوجہد اور بانک کریمہ نے بلوچ ازہان پر خوف و ڈر کا خاتمہ کیا، کریمہ بلوچ نے بلوچ عورت کو سیاست میں متحرک کردیا کیونکہ عورت کی جدوجہد کے بغیر سیاست کامیاب نہیں ہوسکتی، کریمہ بلوچ کے والدین سلام کے لائق ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کو کریمہ جیسی بیٹی عطا کی۔ کریمہ بلوچ نے جدوجہد اور قربانی کی بدولت سرزمین کا حق ادا کیا، ان کا مشن اور ان کی منزل قومی حقوق کا حصول یا انصاف رسائی تھا، انہوں نے کہاکہ حاکموں نے 1948 سے لے کر آج تک بلوچ وطن کو حقوق نہیں دیے۔ بلوچ وطن پاکستان کا آدھا حصہ ہے لیکن حاکم طبقہ بلوچستان کو حقوق دینے کو تیار نہیں ہے۔

بلوچستان پر حکمرانی بھی شروع دن سے آقا کی مرضی منشاء کے مطابق ہوتی ہے تمام عرصے میں صرف دو مرتبہ بلوچوں کی حقیقی حکمرانی قائم کی گئی مگر ان دونوں کا عرصہ زیادہ سے زیادہ تین سال تھا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ وسائل کی لوٹ مار بے دردی سے جاری ہے، سونا اور تانبا بلوچ سرزمین سے نکلتی ہے لیکن ان پر بلوچستان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا، انہوں نے کہاکہ بلوچ اس ریجن کے دیگر اقوام سے زیادہ سے باشعور ہے، نئی گریٹ گیم میں بلا شبہ بلوچ اپنی شناخت اور سرزمین کا تحفظ کرے گی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکٹیوسٹ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچ سماج کے گھاٹوپ اندھیروں میں کریمہ بلوچ نے دور سے روشنی دیکھی اور اس کے لیے لڑتی رہی، اس لڑائی میں ان کا وجود ٹورنٹو کے ندی میں ختم کردیا گیا مگر ان کی آواز ٹورنٹو سے لے کر گوادر تک بلند ہے، کریمہ صرف ایک کردار نہیں ہے بلکہ ان کا کردار مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے وہ ایک باغی عورت تھی، جس نے سرزمین اور قومی شناخت کی خاطر جدوجہد کی، حاکم سوچ رہا ہے کہ تشدد سے بلوچ جدوجہد کو روک دے گا مگر اسی جدوجہد کے لیے کریمہ نے زندگی دی۔

انہوں نے کہاکہ ترقی نسواں کیلئے بہت سے ادارے کام کررہے ہیں۔ان کا منشور ہے کہ جدوجہد کے بغیر عورت زندہ نہیں رہتی، عورت اپنی کہانی خود لکھتی ہے دنیا کا ہر فرد ہر قوم اپنی کہانی خود لکھنا چاہتی ہے وہ اپنی کہانی کسی دوسرے کے ذریعے لکھوانے کی اجازت نہیں دیتی، کریمہ ایک ایسی جہد کا حصہ بنی جس کا حصہ بننا شاید مردانہ سماج کے اکثریتی مردوزن کے بس کی بات نہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس قوم نے کریمہ کی جدوجہد کو سلام دیتے ہوئے اپنی ماں کا درجہ دیا۔ باغی ماں نالائق اور نااہل نہیں باغی قومیں پیدا کرتی ہیں اور باغی قومیں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں، کریمہ بلوچ جدوجہد کی نئی تاریخ ہے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم کریمہ کے عہد میں زندہ ہیں، یہ شناخت کی جنگ ہے اسے شہداء نے آگے بڑھایا ہے یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی شہید محراب خان نے انگریز سے شناخت کی جنگ لڑی اور کریمہ نے اسی کا تسلسل برقرار رکھا، کوئی لفظ کوئی جملہ کوئی نظم کریمہ کو بیان نہیں کرسکتی، انقلابی لوگ زندگی سے محبت کرتے ہیں یہ جدوجہد بھی اسی زندگی کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ بہ حیثیت قوم ختم نہیں ہوسکتی کیوں کہ ہر بلوچ کریمہ ہے لیکن کریمہ بننے کا کوئی شارٹ کٹ طریقہ نہیں ہے۔ کریمہ کو اپنانا ہے تو اس کی جدوجہد کو اپناؤ وہ ایک وومن ایکٹیوسٹ نہیں قومی ایکٹیوسٹ تھی۔ اس کی جدوجہد کو منقسم نہ کرو۔

پروفیسر ڈاکٹر رحیم مہر نے کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ بانک کریمہ بلوچ صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ وہ ایک افسانہ نگار اور قلم کار بھی تھی۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں بلوچ وطن کا نوحہ لکھا، بلوچ درد و ازیت کو بیان کیا اور گمشدہ بچوں کی عکاسی کی وہ افسانوں اور ادبی فن پاروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما شہید پروفیسر ارمان لونی کی بہن وڈانگہ لونی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق اور انسانی شناخت کے لیے کریمہ بلوچ نے قربانی دی، اپنی قوم کی طرف سے بلوچ سرزمین کی بیٹی کو سلام پیش کرتی ہوں، پشتون اور بلوچ اقوام اپنے ایسے فرزندوں کی قربانی کو خراج دے کر یاد کریں۔

اپنے شہداء کی برسی منا کر اپنی قوم کو یاد دلاسکیں کہ ہمارے شہداء نے ہمارے لیے قربانی دی ہے، حاکم و محکوم اور ظالم و مظلوم کا ایک سلسلہ ابد سے چل رہا ہے اس کا سبب استحصال ہے۔ پشتون اور بلوچ سمیت محکوم اقوام کے درمیان قومی مفادات کے لیے اتحاد لازمی امر ہے، ہر ظلم اور ہر جبر کے خلاف ہر زمانے میں کوئی موسی پیدا ہوا ہے، ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف بلوچ و پشتون جدوجہد جاری ہے ہمارے ہاں بھی موسی جیسے کردار پیدا ہورہے ہیں، ہم جتنی قسمیں کھائیں یہ لوگ ہمیں محب وطن نہیں کہیں گے اس لیے ہمیں اپنی طرف سے اپنا جدوجہد جاری رکھنا چاہیے، اپنی بد بختیوں سے نجات کا واحد راستہ قوم پرست سیاست ہے، ہمیں قومی سیاست سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے لیکن ہماری نجات کا آخری ذریعہ قومی سیاست ہے۔

بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکرٹری بلوچ ماما عظیم نے کہا کہ بلوچ پسماندہ سماج میں کریمہ بلوچ جیسی وڑنری سیاسی رہبر کا سامنے آنا حیران کن نہیں ہے کیونکہ بلوچ سماج سیاسی طور پر ہمیشہ مضبوط رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کالونیل ریاستوں میں صرف ایک قوم کی برتری ہوتی ہے۔باقی تمام اقوام زیر دست ہوتے ہیں، کریمہ بلوچ میں حالات کو فیس کرنے کی جرائت تھی، سخت ترین حالات اور الزام تراشیوں کے باوجود کریمہ بلوچ کھڑے رہے، ان میں لیڈرشپ کی تمام صلاحیتیں تھیں، انہوں نے کبھی خود کو اداروں سے بالاتر نہیں سمجھا اس لیے یہ سبق ہر سیاسی کارکن کو جان لینا چاہیے کہ ادارے ہی سب سے بالاتر ہیں ہمیں اداروں کا احترام کرنا چاہیے یہ کریمہ کا فلسفہ ہے۔

این ڈی پی کے مرکزی رہنما رشید کریم بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی مفادات پر ہم سب کو سیاسی اور فروعی اختلافات سے بالا ہوکر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے، بانک کریمہ اور بلوچ شہداء نے معمولی مفادات کے لیے نہیں بلکہ قومی مفادات کیلئے قربانیاں دی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم اپنے قومی مفادات پر بہ حیثیت قوم اور سیاسی کارکن کوئی کمپرومائز نہ کریں اور نا ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہوں ہمیں قومی اجتماعی مفادات پر یکمشت ہونا چاہیے اپنے تماشائی خود نہ بنیں کیوں کہ تماشائی غیر ہوتے ہیں، کریمہ بانک بہت بڑا نام ہے اس کے کردار پر بولنا چھوٹے لوگوں کا کام ہی نہیں ہے۔

سیمینارمیں بلوچ وومن فورم کے زین گل چیئرپرسن اور سیمینار کے آرگنائزر بانک زین گل نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں