سال 1947ء میں ہندوستان کوملنے والی آزادی مکمل نہیں بلکہ ادھوری تھی ، الطاف حسین

0
212

ایم کیوایم کے قائدجناب الطاف حسین نے کہا ہے کہ 1947ء میں ہندوستان کوملنے والی آزادی مکمل نہیں بلکہ ادھوری آزادی تھی، یہ ادھوری آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اسے جغرافیائی لحاظ سے اسی حالت میں ہندوستان واپس نہیں مل جاتا جس حالت میں اس پر انگریزوں نے قبضہ کیاتھا۔ جناب الطاف حسین نے ان خیالات کااظہار گزشتہ روز 7 جنور ی2022ء لندن میں ایم کیوایم کے کارکنوں کو دیئے گئے ایک لیکچر میں کیا۔ لیکچر کاموضوع ”ہندوستان کی ادھوری آزادی” تھا۔

جناب الطاف حسین نے کہاکہ تاریخی اعتبار سے برصغیر(سب کنٹننٹ) ہندوستان اور پاکستان سمیت ایک بڑے خطے پر مشتمل تھا جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔ ہندوستان کے جغرافیہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ مت اوردیگر مذاہب ،مسالک اورعقائد کے ماننے والے آباد تھے ۔ جب نوآبادیاتی دور کا سلسلہ شروع ہوااورسلطنت برطانیہ نے جب اپنے علم وشعور، جدیدٹیکنالوجی اور عسکری قوت کے ذریعے کم ترقی یافتہ ممالک پرقبضہ شر وع کیا تو اس کی سلطنت کادائرہ اتنے بڑے جغرافیہ پر پھیل چکاتھاکہ کہاجاتاتھاکہ وہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔ سلطنت برطانیہ کے لوگ تاجروں کی شکل میں ہندوستان آئے ، انہوں نے ہندوستان کے کلچر، طرززندگی ، ترقی،عسکری صورتحال ، وہاں کی مال ودولت اورجغرافیہ کی پوری صورتحال کاجائزہ لیااوراس نتیجے پر پہنچے کہ اگر برصغیرپرقبضہ ہوجائے تو برطانوی سلطنت کوبہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ سلطنت برطانیہ نے مغل بادشاہوں کے زمانے سے ہی ایسٹ انڈیاکمپنی کے نام سے ہندوستان پر آہستہ آہستہ اپنے پاؤں جمانے شروع کئے، اپنی فوج بنائی اورآخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی تاجربن کرآنے والے ہندوستان کے تاجداربن گئے ۔ہندوستان کی آزادی کے لئے مختلف تحریکیں شروع ہوئیں، آزادی کے متوالے لڑتے رہے، پھانسیاں چڑھتے رہے اورقربانیاں دیتے رہے۔ ہندوستان کی آزادی کی اس جدوجہد میں ہندوؤں،مسلمانوں، سکھوں، بدھ مت اورتمام مذاہب اورعقائد کے ماننے والے ہندوستانیوں نے رنگ، نسل، مذہب اورعقائدسے بالاترہوکر متحدہوکر حصہ لیا۔

سلطنت برطانیہ کے قبضہ کے خاتمہ ،برصغیرکی آزادی اورہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے لئے 1885ء میں ہندوستان کی پہلی باقاعدہ سیاسی جماعت ”آل انڈین نیشنل کانگریس ” کی بنیادرکھی گئی۔موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک بڑے رہنما تھے ، وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے ۔

انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے عوام کو متحدکیا اورآزادی کے لئے طویل سیاسی جدوجہدکی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ اپنی سخت اورمسلسل سیاسی جدوجہد اورقربانیوں کی بدولت وہ بعدمیں ” مہاتماگاندھی ” کہلائے ۔ کانگریس میں ہندو، مسلمان، سکھ،بدھ مت، عیسائی اورپارسی سمیت تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والے شامل تھے ۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں جہاں سرسیداحمدخان، مولانامحمدعلی جوہر ، مولانا شوکت علی، مولاناحسرت موہانی، قائداعظم محمدعلی جناح ،خان لیاقت علی خان ، مولاناابوالکلام آزاد کے نام لئے جاتے ہیں ۔ وہیں مہاتما گاندھی ، جواہرلال نہرو، ولب بھائی پٹیل بڑے نام تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح بھی پہلے کانگریس میں شامل تھے۔ہندوستان کی آزادی کے لئے جہاں سیاسی جدوجہد کرنے والے رہنماتھے وہیں آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کرنے والے رہنما سبھاش چندربوس ایک بڑانام تھے جنہوں نے آزادی کے لئے ”آزاد ہند فوج”بھی بنائی اورانگریزوں کوبہت ٹف ٹائم دیا ۔ اسی طرح تحریک آزادی میں بھگت سنگھ، چندر شیکھرآزاد اوردیگرشخصیات بھی شامل تھیں جنہوں نے آزادی کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔

جناب الطاف حسین نے کہا کہ تحریک آزادی کے ان عظیم رہنماؤں کی قربانیوں کی بدولت ہندوستان کوآزادی تو مل گئی لیکن وہ آزادی نامکمل تھی ہندوستان مکمل نہیں ادھورا آزاد ہوا، وہ مکمل ہندوستان کی آزادی نہیں بلکہ ہندوستان کا بٹوارہ تھا۔ انہوں نے ہندوستان کے رہنماؤں، تاریخ دانوں،دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اورطالبعلموں سے سوال کیا کہ تحریک آزادی کے ان رہنماؤں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے قربانیاں دی تھیں یا ہندوستان کے بٹوارے کے لئے ؟ آزادی کے ان پروانوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے قربانیاں دی تھیں، ہندوستان کے بٹوارے کے لئے نہیں، پھر ہندوستان کے لوگوںن ے ادھوری آزادی پر اکتفا کرکے اپنے آپ کوآزاد کیسے تصور کرلیا؟ قائداعظم محمدعلی جناح کوبٹوارے کاذمہ دار اورانگریزوں کا ایجنٹ قراردینے والے ہندوستان کے لیڈرو ں نے بھی ہندوستان کی تقسیم کوقبول کرکے وہی کام کیا جو قائداعظم نے کیا، پھر قائداعظم اوران میں کیا فرق ہے؟ جولوگ ہندوستان کی آزادی کے لئے قربان ہوگئے ، جنہوں نے اس بٹوارے کوآج تک تسلیم نہیں کیا اورجو اس ادھوری آزادی کی تکمیل کی جدوجہد میں بلواسطہ یا بلاواسطہ آج تک مصروف ہیں، ان کوکیسے نظرانداز کیاجاسکتاہے؟
جناب الطاف حسین نے ہندوستان کے رہنماؤں، تاریخ دانوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور طالبعلموں کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ادھورے ہندوستان کی آزادی کی خوشیاں بھی ادھوری ہیں، ہندوستان کی ادھوری آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اسے جغرافیائی لحاظ سے اسی حالت میں ہندوستان واپس نہیں مل جاتا، جس حالت میں اس پر انگریزوں نے قبضہ کیاتھا۔ آج ہندوستان کی دھرتی ماں پکار پکار کرکہہ رہی ہے تمہاری دھرتی کوتقسیم کیاگیا، اس کے ٹکڑے کئے گئے ، اس کی نامکمل اور ادھوری آزادی کو مکمل کرو۔

جناب الطاف حسین نے کہا کہ ہندوستان کا بٹوارہ انگریز وں نے کیا، ایک برطانوی وائسرائے نے بیٹھ کر بیچ میں ایک لکیر کھینچ دی اور ہزاروں سال کے ہندوستان کا بٹوارہ کردیا گیا۔تقسیم کی اس لکیر کو بارڈر اوراس بٹوارے کو آزادی سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، یہ آزادی نہیں بٹوارہ تھا اوراس بٹوارے نے ہندوستان کاجغرافیہ ہی نہیں بلکہ خاندانوں کو تقسیم کر دیا، خاندانوں کی وراثت، معاشرت، تہذیب، ثقافت سب کچھ تقسیم کردیا ، جو انگریز کی کھینچی گئی لائن کے اس پار تھے وہ اس پار رہ گئے اورجواس پار تھے وہ اس پار رہ گئے ۔ یہ آزادی کے نام پر تاریخ کا ایسامذاق ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔

جناب الطاف حسین نے کہا کہ ہندوستان ماں تھی، اس کی تقسیم تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی، یہ تقسیم گناہِ صغیرہ نہیں بلکہ گناہ کبیرہ اور سب سے بڑا جرم تھا جس کی سزا ہندوستان اور پاکستان کے لوگ آج تک بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نہ یہ بٹوارہ ہوتا، نہ دونوں طرف کے لوگوں کو ہجرت کرنی پڑتی ، نہ ہمارے آباؤاجداد کو اپنا ہزارہا سالہ وطن چھوڑ کر پاکستان آنا پڑتا، نہ یہاں ہمارے ساتھ غیروں اور دشمنوں جیسا سلوک کیا جاتا، نہ ہمیں تلیر، مکڑ، مٹروا، پناہ گیر اور مختلف توہین آمیز ناموں سے پکاراجاتا، نہ ہمارے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا، نہ ہمیں ایم کیوایم بنانے کی ضرورت پیش آتی۔

جناب الطاف حسین نے کہا کہ اب ہمارا جینا مرنا سندھ سے وابستہ ہے، اب سندھ ہماراوطن ہے اورہم سندھ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اورسندھی بھائیوں سے بھی کہتے ہیں کہ آئیے ملکر سندھ کی آزادی کی جدوجہد کریں۔

انہوں نے مہاجرعوام کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو قوم غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے تیار نہ ہو اور مجبوریوں کی بیڑیاں پہننے کی عادی ہو جائے، نسل درنسل غلامی اور ذلت و رسوائی اس کامقدر بن جاتی ہے۔ لہٰذا آپ کومصلحت ، بزدلی اورخودغرضی کی چادر اتارکر اپنی قوم کی بقاء اورآنے والی نسلوں کی باعزت زندگی اور بہتر مستقبل کے لئے میدان عمل میں آکرجدوجہدکرنی ہوگی۔

انہوں نے مزیدکہا کہ جوقوم خودغرض اورمصلحت پسند بن جائے اس کاوہی حال ہوتاہے جواس وقت مہاجر عوام کا ہورہا ہے۔

انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ وہ تاریخ کامطالعہ کریں، غوروفکرکریں اور تحریک کے پیغام کوآگے بڑھانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لائیں ۔ اس موقع پر سوال وجواب کا طویل سیشن بھی ہواجس کے دوران کارکنوں نے جناب الطاف حسین کے فکرانگیز لیکچر کے حوالے سے مختلف سوالات کئے جن کے جناب الطاف حسین نے تفصیلی جوابات دیے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں