خطے میں داعش کا ابھار، علاقائی سیکیورٹی کے لیے چیلنج ۔ رپورٹ

0
82

معروف عربی جریدہ الشرق الاوسط نے اپنے ایک حالیہ رپورٹ میں خطے میں نئی سیکورٹی جہت کے حوالے سے لکھا ہے کہ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں نہ صرف طالبان حکومت کی بقاء کے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہیں بلکہ خطے کے ممالک اور علاقائی طاقتوں کے لیے بھی یہ صورتحال پریشان کن ہے۔صحافی عمر فاروق کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایران، چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کی ایک میٹنگ کی میزبانی کی، جس میں گفتگو کا محور افغانستان میں داعش کا ابھار تھا۔

واضح رہے کہ گوکہ مین اسٹریم میڈیا میں داعش کی سرگرمیاں رپورٹ نہیں ہو رہیں لیکن مخصوص سوشل میڈیا نیٹورکس تصویر کا ایک الگ رخ دکھاتے ہیں جس کے مطابق داعش ایک ٹل جانے والے خطرہ نہیں بلکہ اب بھی اپنے مخالفین کے خلاف ایک سرگرم تنظیم ہے۔بعض رپورٹس کے مطابق امریکا نے طالبان کے ساتھ داعش کے خطرے کے پیش نظر ہی سمجھوتہ کیا تھا۔

پاکستان کے راجدانی اسلام آباد میں متعدد ممالک کے انٹلی جنس سربراہان کے اجلاس میں افغانستان کے شمالی اور مشرقی صوبوں میں داعش کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے۔ایران، چین، روس، پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک نے افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کے خلاف اپنی کوششوں کو مربوط کرنے اور تنظیم کی طرف سے لاحق خطرے سے نمٹنے میں طالبان حکومت کی مدد کرنے پر اتفاق کیا۔

الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی حکام نے کہا کہ روس خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کی سرحدوں پر شمالی افغانستان میں داعش کے بڑھنے پر فکر مند ہے، جسے ماسکو اپنے سیکورٹی دائرہ کار میں سمجھتا ہے۔اسی طرح پاکستانی بھی افغانستان میں آئی ایس آئی ایس کے عروج کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ان کی بنیادی تشویش کا مرکز داعش کی متعدد پاکستانی فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ تعاون ہے۔جنھوں نے حال ہی پاکستان میں شیعہ برادری پر کئی حملے کیے تھے۔ یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے جب افغانستان میں طالبان کی سیکیورٹی فورسز کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں داعش کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم ماہرین نے نشاندہی کی کہ تکنیکی ماہرین کی کمی اور کسی پیشہ ور سکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی طالبان کی کامیابی میں رکاوٹ ہیں۔اس سلسلے میں اسلام آباد میں ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے کہا انھوں نے ننگرہار میں جو کہ (ISIS) خراسان کا گڑھ تھا کم از کم 80 جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے۔طالبان نے حال ہی میں ضیاء الحق، جسے “ابو عمر الخراسانی” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو کابل کے ایک جیل میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے رہنماء فاروق بنگلزھی بھی جنوب مغربی افغانستان کا سفر کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ 28 اگست کو طالبان نے کابل میں داعش سے تعلق کے الزام میں ایک مذہبی اسکالر ابو عبید اللہ متوکل کو گرفتار کیا، گرفتاری کے ایک ہفتے بعد وہ مردہ پائے گئے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اور آنے والے دنوں میں افغانستان میں داعش کے عروج کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جو کہ افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کی حکومت کی بقا کے لیے سب سے طاقتور خطرہ ہے۔ علاقائی ماہرین کا خیال ہے کہ داعش نے افغانستان کے اندر شہری اور فوجی اہداف کے خلاف مہلک حملے کرنے کی اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے اور یہ آنے والے سالوں میں طالبان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا سب سے بڑا عنصر ہو سکتا ہے۔یہ عنصر طالبان حکومت کے بقاء کے امکانات کے بارے میں طالبان حکومت کے حامی علاقائی طاقتوں کے جائزوں پر شکوک پیدا کر سکتا ہے۔

الشرق الاوسط کے مطابق طالبان حکومت کو کابل کے اندر حریف مسلح گروہوں، جیسے سابق افغان شمالی اتحاد، جس کی قیادت تاجک “جنگی رہنماء ” مرحوم احمد شاہ مسعود کے بیٹے کر رہے ہیں، سے کسی سیاسی یا فوجی خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ شہری اور فوجی اہداف کے خلاف داعش کے دہشت گرد حملے طالبان کی قیادت میں افغان حکومت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ طالبان کی حکومت کے مسائل میں جو چیز اضافہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ریاست اور معاشرے کی سلامتی کے لیے جدید ریاستی اداروں کو منظم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 13 فروری کو بعض فارسی خبر رساں اداروں نے یہ مصدقہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ نے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں طالبان مخالف سیاسی تنظیم مقاومت ملی افغانستان اور دیگر جماعروں کے سربراہان سے ملاقات کی۔یہ ملاقات بھی خطے کے ممالک کے نئے رجحان کی نشاندہی کر رہی ہے۔اس نئی تشویشناک صورتحال اور پاکستان کے بھاگ دوڑ نے افغانستان میں طالبان مخالف اور پاکستان سے خائف سابق افغان حکومتی عہدیداران کو درست ثابت کردیا۔جنھوں نے کہا تھا کہ بہت جلد ہی پاکستان کو طالبان کی حمایت کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔مقاومت ملی اور شمالی اتحاد کے دیگر رہنماء پاکستان کو ہی افغانستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، جسے خطے میں علاقائی طاقتوں نے ایک نئی جنگ کے کمان کا ٹھیکہ دیا ہے اور وہ بھی پوری ایمانداری کے ساتھ خطے کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنے کی تیاری میں ہے تاکہ پاکستان کے داخلے جنگ کو سرحد پار دوبارہ افغانستان منتقل کیا جاسکے۔

پاکستان کی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ جنرل ندیم احمد انجم نے انقرہ میں مارشل عبدالرشید دوستم، حاجی محمد محقق اور عطا محمد نور، قومی مزاحمت (مقاومت ملی افغانستان) کی سپریم کونسل کی قیادت کے ارکان اور افغانستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔.باخبر ذرائع نے دی انڈیپنڈنٹ فارسی کو دیے گئے انٹرویو میں تصدیق کی کہ یہ ملاقات جنرل ندیم احمد انجم کی درخواست پر ہوئی اور اس کا مقصد افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر پاکستان کے تحفظات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

باخبر ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران مارشل عبدالرشید دوستم، عطا محمد نور اور حاجی محمد محقق نے افغانستان کے مستقبل پر ایک ہی موقف سے بات کی اور طالبان کے افغانستان پر تسلط برقرار رکھنے کی صورت میں انسانی تباہی پھیلنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ شمالی افغانستان کی سرکردہ سیاسی شخصیات نے افغان بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت کی، لیکن افغانستان کے موجودہ حکومتی ڈھانچے کو یک جماعتی، یک نسلی، متعصبانہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔

الشرق الاوسط کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے داعش کو افغانستان سے باہر نکالنے کے پختہ عزم نے اسے روس، چین، ایران اور پاکستان سمیت علاقائی طاقتوں کی پسندیدہ قوت بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے متعلقہ ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان نے گزشتہ ستمبر میں اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور افغان طالبان حکومت کو داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر تمام ممکنہ انٹیلی جنس اور تکنیکی معلومات فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

2016 اور 2018 کے درمیان، امریکیوں اور “طالبان” کے مشرقی افغانستان سے شدت پسند تنظیم کو نکالنے کے اصرار کی وجہ سے افغانستان میں داعش کے تنظیمی ڈھانچے کو زبردست دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، یہ خطہ 2014 اور 2016 کے دوران اس کے عروج کا گواہ تھا۔

افغانستان کے اندر آئی ایس آئی ایس کی کہانی اس کے مسلسل زوال کے گرد گھومتی ہے، 2014 اور 2016 کے درمیان اس نے بڑے پیمانے پر عروج حاصل کیا، جب اس کے ارکان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔لیکن گذشتہ دو سالوں کے دوران، مشرقی صوبوں کنڑ اور ننگرہار میں امریکی اور افغان حکومت کی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے داعش کو پے در پے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ نقصانات افغان طالبان کی داعش کے خلاف فوجی مہم کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔مغربی ماہرین کی آراء پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق، داعش میں تقریباً 2200 جنگجو شامل ہیں، لیکن لیڈروں اور میدان جنگ میں سپاہیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے کے علاوہ، تنظیم کے زیر کنٹرول کچھ علاقوں کو کھونے کے ساتھ ساتھ دھڑے بندیوں سے بھی متاثر ہوا ہے۔آج، افغانستان میں داعش صرف اس کا سایہ ہے جو پہلے تھا، لیکن متعدد مغربی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔اس وقت داعش اور افغان طالبان کے درمیان تنازعہ چل رہا ہے، اس کے باوجود اس کے سابقہ پاکستانی طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔

دوسری طرف، متعدد سیکورٹی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے کہ وہ ’پر تشدد کارروائیوں‘ سے نمٹ سکے، جو افغانستان میں مختلف شکلوں میں ہوسکتی ہیں، اور اس ہمسایہ ممالک کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ افغانستان میں یہ تشدد پاکستانی سرزمین کے اندر ریاستی فورسز کے خلاف حملوں کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔انٹلی جنس رپورٹس کے مطابق اگرچہ آئی ایس آئی ایس تقریباً ختم ہو چکی ہے، لیکن اس سے وابستہ گروپوں کا نیٹ ورکس موجود ہے۔داعش کا ہیڈ کوارٹر پاکستانی سرحد کے قریب افغان صوبے ننگرہار میں تھا جو پورے خطے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی شدت پسندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔

اپریل 2021 میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2018 میں امریکی اور افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائی نے داعش کی اصل طاقت کو کم کر کے 1500-2000 جنگجوؤں تک پہنچا دیا، اور اسے نیم خودمختار طور پر کام کرنے والے نیٹورکس کے اندر کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔تاہم، 8 مئی 2021 کو کابل میں لڑکیوں کے اسکول پر حملہ، جس میں 80 سے زائد افراد (زیادہ تر بچے) ہلاک ہوئے، اور کابل کے ہوائی اڈے پر حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ داعش تین سالوں میں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہوائی اڈے پر حملے کے دو مقاصد تھے: پہلا، آئی ایس آئی نے یقینی طور پر امریکیوں کو مارنے اور واشنگٹن کو نیچا دکھانے کی کوشش کی، جس کی ساکھ افغان حکومت کے تیزی سے شکست کی وجہ سے پہلے ہی خراب ہو چکی تھی۔ دوسرا طالبان حکومت کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنا تھا۔ اس وقت طالبان امریکی افواج کے انخلاء کو تیز کرنے کے لیے امریکی فوج کے ساتھ تعاون کر رہے تھے اور طالبان ہوائی اڈے کے باہر سیکورٹی کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار تھے، یہ حملہ انھیں کمزور ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ داعش کے زیادہ تر ارکان پہلے طالبان سے تعلق رکھتے تھے ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ طالبان کابل پر حکمرانی کر رہے ہیں اس لیے انھیں اپنے رویے میں نرمی پیدا کرنی ہوگی اس سے طالبان کے اندر سب سے زیادہ شدت پسند افراد داعش میں شامل ہو سکتے ہیں، جس سے اس کی صفیں مضبوط ہو سکتی ہیں۔

علاقائی ریاستیں افغانستان میں بنیاد پرست سنی عسکریت پسندی کی افزائش کے بارے میں بے چین ہیں، خاص طور پر، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف ایک محافظ کے طور پر افغان طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستانی ماہرین داعش کے خلاف کارروائیوں میں امریکیوں کی جانب سے طالبان کی مدد کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کرتے لیکن خدشہ یہ ہے کہ اس سے افغان طالبان کی صفوں میں پھوٹ تیز ہو سکتی ہے۔2018 میں، سینئر پاکستانی سویلین اور فوجی رہنماؤں نے علاقائی سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا جو کہ مئی 2018 میں افغان دارالحکومت، کابل اور بلوچستان کے مرکزی شہرکوئٹہ میں تشدد کی بیک وقت لہر کے بعد پیدا ہوئی۔ داعش کا ممکنہ ابھار، کابل اور کوئٹہ کے علاقائی سلامتی کی صورتحال کے لیے ایک نئی سیکورٹی جہت پیدا کر رہا ہے۔

پاکستانی فوجی حکام کے مطابق پاکستان میں داعش کی کوئی منظم موجودگی نہیں ہے، تاہم فوجی حکام کو خدشہ ہے کہ مشرقی افغانستان میں داعش کے ابھرنے سے پاکستانی سرزمین کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان فوجی عہدیداروں میں سے ایک نے مزید کہا کہ مشرقی افغانستان میں داعش سے وابستہ گروپ شمال مغربی پاکستان میں مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف، علاقائی عسکری ماہرین میں شاید ہی کوئی اختلاف ہو کہ داعش شمالی افغانستان اور مشرقی افغانستان کے کچھ حصوں میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک طرف افغان طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپوں کی خبریں آئی تھیں اور دوسری طرف افغان سیکیورٹی فورسز اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ امریکی فوج اور انٹیلی جنس نے 2018 کے آخری مہینوں سے پورے افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا۔پاکستانی فوج دعوی کرتی ہے کہ ان عسکریت پسندوں کو ایک کامیاب فوجی آپریشن میں پاکستان سے بے دخل کر دیا گیا تھا، لیکن انھیں سرحد پار کے علاقوں میں پناہ گاہیں مل گئیں اایک فوجی اہلکار نے کہا کہ سرحد کے قریب دہشت گردوں کے اس مرکز نے انھیں پاراچنار (پاکستان کے قبائلی علاقے جن کو فرقہ وارانہ فالٹ لائنز کہا جا سکتا ہے) کو ایک آسان ہدف بنانے کا موقع دیا، جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پہلے سے موجود ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں