باغیوں کے زیر کنٹرول یوکرینی علاقوں کو آزادریاستیں تسلیم کرتے ہیں،روس

0
39

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو بطور آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈونیسک اور لوہانسک میں روسی حمایت یافتہ باغی 2014 سے یوکرین کی افواج سے لڑ رہے ہیں اور وہ وہاں ان علاقوں کو ’آزاد ریاستیں‘ قرار دیتے ہیں۔

خیال ہے کہ روس کے اس اقدام سے خطے میں امن مذاکرات کا اختتام ہوسکتا ہے۔ ان علاقوں میں کئی برسوں سے ایک کمزور سیز فائر رہا ہے۔مغربی طاقتوں کو خطرہ ہے کہ اس سے روسی افواج کا یوکرین کے مشرقی علاقوں میں داخل ہونا آسان ہوجائے گا۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ یہ یوکرین کی خود مختاری اور سلامتی، اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بڑی خلاف ورزی ہوگی۔ انھوں نے اسے ایک ’انتہائی سیاہ علامت‘ قرار دیا ہے۔یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد وہ اپنے ردعمل میں یوکرین کے ساتھ اتحاد، سختی اور عزم کا اظہار کریں گے۔

روس کے اس اقدام نے یوکرین کے ساتھ جاری بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے جہاں یوکرین کی سرحد پر پہلے ہی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ روسی فوجی تعینات ہیں۔روس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ نہیں کرے گا تاہم امریکہ نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوین اس حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

مشرقی یوکرین میں ڈونیسک اور لوہانسک میں شہریوں کو بڑے پیمانے پر روسی پاسپورٹ دیے گئے ہیں۔ مغربی اتحادیوں کو خطرہ ہے کہ روس اب اپنے فوجیوں کو باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں داخل کرے گا اور اسے اپنے شہریوں کے تحفظ کا نام دے گا۔

اس اعلان کے فوراً بعد قوم سے خطاب میں پوتن نے کہا کہ جدید یوکرین کو ’سوویت روس نے بنایا۔‘ اپنے ایک بیان میں انھوں نے یوکرین کو ’قدیم روسی زمین‘ قرار دیا ہے۔روسی ہم منصب کے فیصلے کے ردعمل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں سے زیر کنٹرول علاقوں کے ساتھ تجارت پر پابندی عائد کر دی ہے،اس صدارتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ان علاقوں میں نئی سرمایہ کاری، تجارت اور امریکی شہریوں کی جانب سے مالی معاونت نہیں کی جائے گی۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کے مطابق اس حکم کے تحت ایسے افراد پر پابندی لگائی جائے گی جو یوکرین کے ان علاقوں میں کام کرتے ہیں۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ ’میں روس کے اس فیصلے کی مذمت کرتا ہوں جس میں نام نہاد آزاد ریاستوں ڈونیسک اور لوہانسک کو تسلیم کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یوکرین کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے اور منسک جیسے معاہدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے جو تنازع کے حل کے لیے کِیے گئے تھے اور روس ان میں فریق ہے۔

انھوں نے اپنے بیان میں روس پر الزام لگایا کہ ایسا کرنے سے روس یوکرین میں مداخلت کی وجہ ڈھونڈ رہا ہے۔بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جیمز لینڈیل کہتے ہیں کہ روس کے اس فیصلے سے یوکرین کے ساتھ اس کا تنازع مزید بگڑ سکتا ہے۔

انھوں نے اسے روس کے موقف میں واضح تبدیلی کہا ہے۔ ’صدر پوتن اور ان کے وزرا اس سے قبل منسک معاہدہ بحال کرنے کی بات کر چکے ہیں جو تنازع کے سیاسی حل کے لیے کیا گیا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ اب روس کی جانب سے ان علاقوں کو تسلیم کرنے سے وہ معاہدہ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔ ’لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ دونوں فریقین اب کیا کریں گے؟ کیا مغرب روس پر اقتصادی پابندیاں لگائے گا؟ کیا روس ان علاقوں میں اپنے فوجی تعینات کرے گا؟ اور پھر مغرب ان کا جواب کیسے دے گا؟‘سفارتی نامہ نگار پال ایڈمز کے مطابق ’پوتن اب کسی الگ جگہ سے بول رہے ہیں۔ یہ محض تاریخ کا کوئی سبق نہیں۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی اور کائنات کی بات ہے۔‘برسلز سے بی بی سی کی نامہ نگار جیسیکا پارکر کے مطابق ماضی میں یورپی یونین کے حکام نے عندیہ دیا تھا کہ ایسے ممکنہ روسی اقدام کے ردعمل میں اقتصادی پابندیوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں