یوکرین پر حملے کے ردعمل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل میں روس کی رْکنیت معطل کردی ہے۔جمعرات کو جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں رائے شماری کے ذریعے روس کی رکنیت منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی۔
193 ممالک میں سے 93 نے قرارداد کے حق میں، 24 نے مخالفت میں ووٹ دیے جب کہ 58 ارکان غیر حاضر رہے۔چین نے روس کی رکنیت ختم کرنے کے خلاف ووٹ دیا؛ جب کہ غیر حاضر رہنے والے ملکوں میں پاکستان، بھارت، جنوبی ایشیا کے تمام ممالک؛ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، جنوبی افریقہ اور برازیل شامل ہیں۔
اس سے قبل، مغربی سفارت کاروں نے بتایا تھا کہ 193 ارکان کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کے حق میں واضح حمایت موجود ہے اور روس کو انسانی حقوق کونسل کی رکنیت سے خارج کرنے کی قرارداد منظور ہوجائے گی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یوکرین میں انسانی بحران جاری ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی کے معاملے پر جنرل اسمبلی کو شدید تشویش لاحق ہے، خاص طور پر ان اطلاعات پر کہ روس انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے۔
اس اقدام کی تفصیل بتاتے ہوئے، اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر لِنڈا ٹھومس گرین فیلڈ نے پیر کے دن رائٹرز کو بتایا تھا کہ ”یہ بات (روس) کو بتایا ضرری ہے کہ ہم اس بات کی کھلی چھٹی نہیں دے سکتے کہ جو چاہے کرتا پھرے، اور ساتھ ہی اس بات کا ڈنڈھورا پیٹے کہ اسے انسانی حقوق کی حرمت کی پرواہ ہے”۔رائٹرز کی خبر کے مطابق، اس سے قبل روس نے رکن ملکوں کو خبردار کیا تھا کہ ووٹنگ کے دوران‘ہاں‘ یا‘غیر حاضری’کو غیر دوستانہ عمل تصور کیا جائے گا، جس کے دوطرفہ تعلقات پر اثرات پڑیں گے۔روس کی رْکنیت معطلی کے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو کہا ہے کہ روس اپنے مفادات کا دفاع جاری رکھے گا۔
پیسکوف نے برطانیہ کے اسکائی نیوزکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلہ کے بارے میں معذرت خواہ ہیں لیکن ہر ممکن قانونی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا دفاع جاری رکھیں گے۔جنرل اسمبلی نے یوکرین کے قصبے بوچا میں روسیوں کے مظالم کے بعد یہ منظوری دی ہے۔اس قصبے میں یوکرین کے حکام گذشتہ اتوار کو داخل ہوئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ روسی افواج نے وہاں 410 سے زیادہ مکینوں کا قتل عام کیا ہے۔
مقتولین کی لاشیں بوچا کی سڑکوں پر بکھری پڑی تھیں۔ان کی منظرام پر تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بعض مقتولین کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے،انھیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا یا پکڑ کرپھانسی دینے کے انداز میں موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔
روسی فوج کے ان مظالم کے خلاف عالمی سطح پر سخت ردعمل کا اظہارکیاگیا ہے،اس کی بین الاقوامی سطح پرمذمت کا سلسلہ ہنوزجاری ہیاور مغربی رہ نماؤں نے اس قتل عام کو ”جنگی جرم“قراردیا ہے اور اس کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم دوسری جانب روس نے شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے اور دعویٰ کیا کہ کیف نے مغربی ذرائع ابلاغ کے لیے”اشتعال انگیزی“کا مظاہرہ کیا ہے۔پیسکوف نے بالاصرار کہاکہ بوچا کی گلیوں میں نظر آنے والی لاشیں اچھی طرح سے اسٹیج کیے گئے ڈرامے کاحصہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ”ہم اس بات پراصرار کرتے ہیں کہ بوچا کی ساری صورت حال ایک اچھی طرح سے اسٹیج کی گئی بدحالی کی مظہرہے اورکچھ نہیں۔وہ غریب لوگ، وہاں موجود وہ لاشیں روسی فوجیوں کا شکار ہونے والوں کی نہیں تھیں“۔کریملن کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ روسی فوجیوں کو یوکرین میں ”نمایاں نقصان“اٹھانا پڑا ہے۔یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔تاہم انھوں نے روسی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کی وضاحت نہیں کی ہے۔سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق روس نے 25 مارچ کو کہا تھا کہ اس نے یوکرین میں اپنے1351فوجیوں کو کھو دیا ہے اور 3825 فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی تھی۔