ایم فل پاس بلوچ مزاحمتکار شہید ادی شاری بلوچ کے نام !!
جب مظلوم قوموں کی آواز انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی قوتیں سننہ پسند نہیں کرتی اور جب پاکستان جیسی دہشتگرد ، فاشی ، جابر ، وحشی فوج پرامن سیاسی ورکرس ، طالب علم ، ادیب ، شاعر ، فنکار اور عام شہریوں کو جبری گم شدہ کرکے ان پر ٹارچر سیلوں میں سالوں سال قید کرکے ذہنی جسمانی اور ڈرل مشینوں سے بترین تشدد کرکے ان منسخ شدہ لاشیں پہنکیں جائے یا پہر اجتماعی قبریں ملیں اور ان میں سے کسی کے جسم سے قیمتی اعزوا نکالے جائیں تب اس مظلوم کی تحریکیں بلوچ مزاحمتکاروں کی صورت میں جنم لیتی ہیں
ہماری شہید ادی شاری بلوچ بھی اس قومی مزاحمت کا قومی شعور اور ضمیر ہے
ادی شاری بلوچ ایم فل پڑھی ہوئے تھے وہ چاہتے تو کسی یونیورسٹی میں سترہ گریڈ کی لیکچرر بن کر اپنی انفرادی لگ زری زندگی بصر کرتی مگر اس بلوچ بہادر بیٹی نے اپنے تاریخی وطن بلوچستان کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ، تہذیب ، سیاسی اقتصادی اور جاگریافی مفاد ، بقا اور آزادی کے لیئے اپنی خوبصورت زندگی قربان کردی
ادی شاری بلوچ کے شعور اور قومی ضمیر نے بلوچ سرزمین پر پاکستانی فاشسٹ دہشتگرد فوج کے قبضے بعد بندوق کی نوق پر جبر ، ظلم ، دہشت ، وہشت اور بلوچستان کے وسائل تیل ، گیس ، سونا ، سمندر ، خوبصورت پہاڑوں کا استحصال قبول نہیں کیا
ادی شاری بلوچ نے بلوچستان جیسی امیر ترین سرزمین پر پنجابی فوج کے جانب سے استحصال کے بعد اس پانی کی قلت ، گیس کی قلت ، تیل کی قلت اور اس بوکھ کو قبول نہیں کیا جو پنجابی قابض فوج کے وہ جبر کے ذریعے بلوچ مائوں ، بہنوں ، بھائیوں ، بچوں ، بزرگوں کے پیٹ میں تھی
ادی شاری بلوچ نے جب دیکھا کے پنجابی فوج کے ظلم وہ جبر پر پوری دنیا کی آنکھوں پر سیاہ پٹی ، کانوں سے بہرے اور زبانوں پر تالے ہیں تو وہ اپنے بلوچستان کی قومی آزادی کے دفاعی مزاحمتی تحریک سے جڑ گئی اور یہ شعوری طور پر فیصلہ کیا کے وہ دشمن قوت پر اپنی مزاحمت کے ذریعے قیامت برپا کریگی
ہم نے دنیا کے مختلف انقلابوں ویٹنام ، کیوبا ، اسپین ، فلپین اور دیگر ریولشنری ہیروز کے کرداروں کی قربانیوں کو پڑہا تھا مگر آج ہم بلوچ مزاحمتی تحریک میں وہ انقلابی ہیروز دیکھ رہے اور فخر بھی کر رہے ہیں
جس طرحہ ہمیں دوسرے انقلابی ہیروز پر فخر ہے اس طرحہ ہمیں سندھ اور بلوچستان کے مزاحمتکاروں پر بھی فخر ہے
ہم سمجھتے ہیں ہر قوم کو یہ فطری دفاعی حق حاصل ہے کے وہ اپنی سرزمین ، تاریخ ، کلچر ، زبان ، تہذیب ، وسائل ، سیاسی اقتصادی بقا ، آزادی اور ترقی کے لیئے جدوجھد کریں اور دفاع میں مزاحمت کرے اس طرحہ سندھ اور بلوچ قوم کی قومی تحریکو کو یہ حق حاصل ہے کے وہ اپنے قومی وجود کے لیئے ہر جدوجھد کا طریقا استعمال کر جس سے دشمن قوت کو شکست ملے
جس طرحہ عالمی قوتیں اپنے مفاد اور بقا کے خاطر جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں اس طرحہ سندھ اور بلوچستان کی قومی آزادی کے تحریکوں کو بھی حق حاصل ہے کے وہ اپنے تاریخی وطن کے خاطر ہر طرح کی جدوجھد کریں
اس لیئے آج ہم شعوری طور پر ادی شیری بلوچ کی قومی دفاع اور آزادی کے لیئے اس آخری حد تک جانے والے احتجاج کی مکمل حمایت اور ان پر قومی سلام پیش کرتے ہیں
ادی شاری بلوچ کا عمل پاکستانی فوج کی جانب سے بلوچستان کے اندر جاری فوجی جارھیت کا نتیجا ہے جو کے انقلابی تنظیمیں اس وقت کرتی ہیں جب انستانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ضمیر خاموش ہوتا ہے
آخر میں سر جھکا کر قومی سلام اپنی بلوچ بہادر بیٹی شاری بلوچ کے نام
آپ کی قربانی بلوچستان کی بقا ، آزادی اور ترقی کا تاریخ میں دلیل بنیےگی
غلام حسین شابرانی
مرکزی جنرل سیکریٹری
جیئے سندھ فریڈم موومینٹ