مقبوضہ بلوچستان: جبری لاپتہ خواتین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ بی این ایم

0
87

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے گچک میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں خواتین کی جبری گمشدگی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہے کہ کرکئے ِ ڈل، گچک ضلع پنجگور سے 25 اپریل 2022 کو پاکستانی فوج نے بلوچ آزادی پسند صالح ولد ہارون کی ماں شاہ بی بی بنت سھراب، بہو شہزادی بنت عبدالرحمان اور شہزادی کے والد عمررسیدہ عبدالرحمان سمیت ان کے دیگر اہل خانہ کو حراست میں لینے کے بعد اپنے خفیہ ٹارچر سیلز میں ڈال کر جبری لاپتہ کردیا۔ ہمیں ان کی زندگی اور صحت سے متعلق تشویش ہے اور ان کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ چاہے کسی کو ریاست ناپسند کرتی ہو لیکن کسی بھی انسان کی جبری گمشدگی عالم انسانیت کے لیے قابل قبول نہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی میں دن بدن شدت ا?تی جا رہی ہے۔ ماضی میں سیاسی کارکنان اور جنگ آزادی سے وابستہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اب ان کے اہل خانہ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ صالح کے والد ہارون کو بھی اس سے پہلے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تشدد کی وجہ سے ان کی حالت غیر ہوچکی ہے۔ پاکستانی فوج کا مذکورہ خاندان پر دباؤ ہے کہ وہ صالح کو پاکستانی فوج کی تحویل میں دیں۔“

انکا کہنا تھا کہ بلوچوں پر پاکستانی فوج کا جبر کسی خاص واقعے کا ردعمل نہیں بلکہ وہ بلوچستان کی زمین اور سماج پر مکمل قبضہ چاہتی ہے۔ البتہ کسی خاص واقعے کے بعد وہ اپنے پہلے سے طے شدہ اہداف پر زیادہ شدت سے کارروائی کرتی ہے تاکہ پنجاب کی عوام کو دھوکا دے کر مطمئن کرسکے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں گھار شاری کے فدائی حملے کے بعد اسلام ا?باد اور لاہور میں بلوچ طلبائکو نشانہ بنایا گیا۔ بیبگرامداد سمیت دیگر طالب علم اس لیے نشانے پر ہیں کہ بلوچ قوم کو اس کے دانشمند طبقے سے محروم کیا جائے۔ یہی پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں بھی کیا تھا۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ ریاست پاکستان کے جبر کے خلاف خاموش نہیں رہے گی۔اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے سمیت انسانی حقوق کے دیگر اداروں کو خطوط لکھے جائیں گے اور عالمی براداری کی خاموشی پر ان کو متواتر احتجاجی مراسلے ارسال کیے جائیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں