اک شور برپا ہے عمران کے اس بیان پر کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہیں کئے تو اسٹیبلشمنٹ خود بھی تباہ ہو جائے گی، فوج بھی تباہ ہو جائے گی، سری لنکا کی طرح ملک دیوالیہ ہو جائے گا، اس سے یوکرین کی طرح ایٹمی ہتھیار لے لئے جائیں گے اور پاکستان تین ٹکڑوں میں بٹ جائے گا.۔
میں سوچ رہا ہوں کہ عمران کے اس بیانئے میں غلط کیا ہے کہ اتنا شور مچا ہے اور کوئی اس بیانئے کی اصل حقیقت پر کیونکر بات نہیں کر رہا۔اتنے انجان اور سیدھے سادے تو نہیں یہ سب لوگ۔
ایک انتہائی سفاکانہ بیان انتہائی سادگی سے اس عمران خاں نے دیا تھا کہ اس حکومت سے بہتر ہے کہ ایٹم بم گرا کر سب ختم کیا جائے.۔
اصل شور تو اس تباہ کن بیان پر برپا ہونا چاہیے تھا لیکن سب کو شاید زمین چاہیے اس پر کیڑے مکوڑوں کی طرح بسنے والے انسان نہیں۔
چلو، عمران اور ان کے حواریوں اور مخالفوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر ھم آگے بڑھتے ہیں اور تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازش کا علم عمران خان کو کیسے ہوا۔
اگرچہ عمران پاکستان کے چار ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی بات کرتے تو یہ عام سی بات لگتی لیکن یہ تین ٹکڑوں والی بات تو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ چار کے بجائے تین ٹکڑے کیسے؟ جب میں نے یہ سوال اپنے ایک دوست سے کیا تو اس نے رالف پیٹرس کے آرٹیکل Blood Borders خونی سرحدیں کی طرف منبدول کرائی۔
یہ مضمون آج سے 16 برس پہلے 1 جون 2006 کو آمریکا کے آرمڈ فورسز جرنل میں شائع ہوا تھا جس کا مرکزی موضوع نہ تو پاکستان تھا اور نہ ہی جنوبی ایشیا بلکہ اس کا مرکزی موضوع بحث ہے مشرق وسطیٰ Blood Borders: A Propsal to Redraw “A New Middle East یہ ہے رالف پیٹرس کے تحقیقاتی مضمون کا موضوع، خونی سرحدیں،نئے مشرق وسطیٰ کی تشکیل کے متعلق اک تجویز،
رالف پیٹرس آمریکا کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل ہیں جس نے بہت سارے تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے یورپی کالونیل قوتوں کی طرف سے آفریکا اور مشرق وسطیٰ میں کھینچی گئی خونی سرحدوں کا تو ذکر کیا ہے لیکن جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر ہند میں مغربی استعماریت کی طرف سے کھینچی گئی خونی سرحدوں ریڈکلف باؤنڈری وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔، اس مضمون میں پاکستان کا ذکر مشرق وسطیٰ کی ارد گرد کی ریاست Peripheral state کے طور پر آیا ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی طرح پاکستان بھی غیر فطری ریاست ہے اور یہ دونوں ریاستیں ٹوٹ جائیں گی۔
رالف نے تجویز دی ہے کہ سب سے پہلے عراق کو تین ریاستوں، سنی عرب ریاست، شیعہ عرب ریاست اور کردستان میں تقسیم کیا جائے،
سعودی عرب کے شیعہ عرب ایریا کو شیعہ عرب ریاست کا اور سنی ایریا کو سنی عرب ریاست کا حصہ بنایا جائے اور جہاں تک مکہ مدینہ کا تعلق ہے تو اسے بھی سعودی حکمرانوں کے قبضے سے آزاد کراکر وہاں پر ویٹیکٹن کے طرز کی ریاست قائم کی جائے،
محقق کا دعویٰ ہے کہ سب سے زیادہ خونی سرحدیں آفریکا میں کھینچی گئی ہیں جن کی بدولت آفریکا میں لاکھوں انسان خونی جنگوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں.،رالف کا دعویٰ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کرد، بلوچ اور شیعہ عرب لوگوں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی اور دھوکہ دہی کی گئی ہے جس کا تدارک کرنے کا وقت آگیا ہے اور یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایران، عراق، شام اور ترکی کے کرد علائقوں کو ان ممالک سے علیحدہ کرکے آزاد کردستان کی ریاست معرض وجود میں لائی جائے۔
ایران اور پاکستان کی بلوچ آبادی کو یکجا کرکے آزاد بلوچستان کی ریاست قائم کی جائے اور عراق، سعودی، یمنی و متصل شیعہ آبادی کو ایک عرب ریاست میں یکجا کیا جائے،موصوف چاہتا ہے کہ پاکستان کی ساری پشتون آبادی کو گریٹر افغانیہ میں مدغم کیا جائے یوں ڈیورنڈ لائن بھی ختم ہوجائے گی اور پیٹرس نے جو نقشہ پیش کیا ہے وہ عمران خان کے پاکستان کو تین ٹکڑوں میں بٹ جانے کی نشاندہی کرتا ہے،
وہ نیا پاکستان دریائے سندھ کے مشرق میں دکھاتا ہے،رالف پیٹرس لکھتا ہے کہ، پاکستان، ایک اور غیر فطری ریاست، اپنی بلوچ اراضی کھو دے گا،جو آزاد بلوچستان کا حصہ بنے گی اور باقی ماندہ قدرتی پاکستان دریائے سندھ کے مشرق میں ہوگا ماسوائے کراچی کے نزدیک مغربی خطے کے۔
رالف نے جو نقشے پیش کئے ہیں آپ ان میں سے ایک نقشے میں آزاد بلوچستان، نیا افغانستان اور تین ٹکڑوں میں بٹ جانے کے بعد کا نیا پاکستان صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں.،آپ صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ
پاکستان کے تین ٹکڑوں میں بٹ جانے کا خیال محض عمران خان کے ذہن کا اختراع نہیں ہے اور نہ ہی یہ اک کھوکھلی دھمکی یا چتاؤنی ہے.
اس کو محض عمران خان کی اقتداری ہوس سے منسلک کرکے اور طوفان بدتمیزی مچا کر تلخ حقائق کو کارپیٹ کے نیچے دبانے سے آپ سب اپنی تباہی کا سماں ہی باندھ رہے ہیں،مکمل حقائق کو سارے حکمران حلقے چھپانے کے درپے ہیں، ہر کوئی اپنے اپنے ذاتی،
گروہی، فروعی، مافیائی مفادات کو زک پہنچنے کے ڈر سے ان تلخ حقائق کے کسی نہ کسی حصے سے پردہ اٹھاتا ہے۔
اور پھر پردے کے پیچھے چھپ جاتا ہے. جن قومی مفادات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ان کو یوں سر بازار تین وال کیا جاتا ہے لیکن سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کوئی نہیں کرتا.،جن کو آج آمریکی سازش نظر آ رہی ہے ان کو پتہ نہیں تب کوئی آمریکی سازش نظر آئی تھی کہ نہیں جب
آم کی پیٹیون سے جنرلز کا جہاز چناب دوز ہوا تھا!!!
پنڈی اور پینٹاگون کا ایک پیج تو اسی دن پہٹ گیا تھا
اور جب سویت یونین ٹوٹ گیا تو سوال اٹھایا گیا اب ریاست مملکت خداداد کی باقی کیا افادیت رہ گئی ہے اور کب تک! تب سے مغربی تھنک ٹینکس اور تجزیہ نگاروں نے الگ الگ زاویوں سیباقی دنیا کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی بھی ممکنہ نئی سیاسی جغرافیائی تبدیلیوں کے نقوش پر بحث چھیڑ دی جن میں سے آمریکی آرمڈ فورسز جرنل میں شائع ہونے والے اس مضمون نے نمایاں مقبولیت حاصل کی۔
اور ہم نے حسب روایت اس پر غور وفکر کرنے کے بجائے اسے کارپیٹ کے نیچے دبانے کی کوشش میں ہی تندھی سے لگے ہوئے ہیں۔
ہم نے سنا ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں ہتھیار پھینکے جا رہے تھے،تب بھی مغربی پاکستان میں عوام کو فتح کے نغمے سنائے جا رہے تھے.
جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے تاریخ انہیں تاریخ بنا دیتی ہے، عمران خان نے کسی بھی نیت سے یہ جو تلخ حقائق کارپیٹ کے نیچے سے نکال کر عوام کے سامنے رکھ دیئے ہیں، عقل و دانش کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کو سنجیدگی سے زیر بحث لایا جائے.
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آمریکن ڈیفینس جرنل میں شائع ہونے والے نقشوں پر ان 16 سالوں میں کہاں کہاں کیا پیش رفت ہوئی ہے اور ان میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں۔
سب سے پہلے عراق پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دے گا کہ رالف کا مضمون اور نقشے تو بعد میں شایع ہوئے ان نقوش پر عملدرآمد تو
16 سال پہلے پہلی خلیجی جنگ کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جب عراق کو عملاً تین حصوں شیعہ، سنی اور کرد خودمختار علائقوں میں تقسیم کردیا گیا،اس کے ساتھ ہی ترکی اور شام میں بھی کرد تحریک مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے.،سارا مشرق وسطیٰ خانہ جنگیوں کی آگ میں جل رہا ہے.
سعودی، یمن جنگ اور ایران، سعودی کشمکش میں شیعہ اور سنی عرب ریاستوں کے قیام کی راہیں بھی ہموار کی جارہی ہیں۔
آزاد بلوچستان کی تحریک بھی زور پکڑ رہی ہے اور شاری بلوچ کے خودکش حملے نے تو بلوچ تحریک کو عالمی سطح پر موضوع بحث بنا لیا ہے.
بلوچ تحریک نے ایک بڑی کامیابی یہ حاصل کی ہے کہ چین کو اعلان کرنا پڑ گیا ہے کہ اس نے سیپیک کا مرکز گوادر سے کراچی منتقل کردیا ہے جس کے بعد بلوچ تحریک، ایس آر اے اور ایم کیو ایم لنڈن نے کراچی میں اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں جو چین پنجاب نیکسز کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
جہاں تک پختون تحریک کا سوال ہے تو وہ دو رخوں میں بڑہ رہی ہے.،ایک رخ بلڈ بارڈرز والا ہے کہ ہم سب افغان ہیں اور دوسرا دو ریاستی نظام کا ہے کہ گریٹر افغانیہ کی جگہ افغانستان اور پختونستان کی طرف قدم بڑھائے جائیں۔ساری بین الاقوامی قوتوں کو یہ دوسرا راستہ بہتر لگ رہا ہے کیونکہ گریٹر افغانیہ کا خطرہ کوئی اپنے سر پر منڈلاتا نہیں چاہے گا۔
ادھر پنجاب میں جنوبی پنجاب کی سرحدوں اور الگ تشخص کے ذریعے سرائیکی وسیب کے نقوش نمایاں کئے جا رہے ہیں،
اْدھر گلگت بلتستان کو الگ شناخت دی جا رہی ہے اور کشمیر کو الگ،اس سے تو تین ٹکڑوں کے بجائے سات ریاستوں کے نقوش نمایاں ہو رہے ہیں یعنی سندھ، بلوچستان، سرائیکی وسیب، پنجاب، پختونستان، گلگت بلتستان اور کشمیر،آگے مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا.
جو بھی ہو ہم کاش کہ مشرقی پاکستان جیسی خونریزی سے بچ پائیں اور کیسی بھی حکومت ہو کوئی شہر ہیرو شیما اور ناگاساکی نہ بنے۔