کراچی میں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، مختلف بلوچ علاقوں میں گھروں پر چھاپے مارکر لوگوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا گیا ہے۔
گذشتہ رات 4 بجے کے وقت کراچی کے علاقے لیاری میراں ناکہ پر سیکورٹی فورسز نے ضلع پنجگور کے رہائشی شوکت ولد حاجی حضور بخش نامی نوجوان کو جبری طور پر گھر سے اٹھاکر لاپتہ کردیا۔لاپتہ ہونے والے شخص کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ بے گناہ ہے اور ایک نجی بینک کا فورتھ کلاس ملازم ہے۔
اسی طرح گذشتہ روز، صبح پانچ بجے کے قریب کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا۔دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر اور غمشاد بلوچ پانچویں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔
بلوچستان کے علاقے تمپ سے تعلق رکھنے والے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سوشیالوجی کے طالب علم کلیم اللہ کو گذشتہ رات گلستان جوہر میں گھر سے جبری طور لاپتہ کیا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ انہیں پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد ان کے متعلق کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔ان کی جبری گمشدگی کے وقت سے لیکر اب تک خاندان کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔
کراچی میں پاکستانی فورسز کی جانب سے لوگوں کی جبری گمشدگی پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ سندھ حکومت کو اس عمل میں برابر کے شریک قراردیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی سخت احتجاج کرنے کا حق رکھتی ہے۔کراچی پریس کلب کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور لاپتہ افراد کے خاندان کے افراد نے سندھ حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے سامنے تمام بلوچ دہشتگرد ہیں۔ سندھ کے مختلف تعلیمی اداروں سے بھی درجنوں طالب علم اس وقت فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں۔
آمنہ بلوچ کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں کراچی سے متعدد افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا۔ کراچی میں خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا۔ آئے روز کراچی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کے سامنے ان کے بیٹوں اور بھائیوں کو اٹھاکر لاپتہ کیا جاتا ہے۔