پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالی سال 2023-2022 کا بجٹ پیش کردیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے جب کہ دفاع کے لیے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ کا کل حجم 9502 ارب روپے ہے جس میں قرضوں کی ادائیگی کے لیے 3950 ارب، ترقیاتی منصوبوں کے لیے 800 ارب اور دفاع کے لیے 1523 ارب مختص کیے گئے ہیں۔آئندہ سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ صوبوں کا حصہ 1400 ارب جب کہ وفاق کے پاس نیٹ ریونیو 4904 ارب روپے ہوگا۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترقی کا بجٹ ہے جس کی بنیاد پر مستقبل میں ترقی والے بجٹ بنیں گے۔ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کی کم سے کم حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کردی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اضافی رقوم فراہم کرکے سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کی جائے گی۔ سی پیک کے تحت سپیشل اکنامک زونز کے جلد آغاز پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اس کے علاوہ آئی ٹی، زراعت، غذائی تحفظ، قابل تجدید توانائی، تعلیم اور نوجوانوں کی آمدنی کو ٹیکس استثنٰی دیاجا رہا ہے۔غیر پیداواری اور تعیش کے زمرے میں آنے والی چیزوں سے سرمائے کو پیداواری اثاثوں اور شعبوں کی طرف منتقل کیاجا رہا ہے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا کہ امیروں سے دولت کا رْخ غریبوں کی طرف موڑا جارہا ہے۔ یہ برآمدات اور سرمایہ کاری بڑھانے والا بجٹ ہے۔ اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے ’ایچ۔ای۔سی‘ کے بجٹ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 67 فی صد اضافہ کیاجارہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ بلوچستان کے طلبہ کو 5 ہزار تعلیمی وظائف دیے جائیں گے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کواضافی تعلیمی وظائف دیں گے۔ بلوچستان کے تعلیمی شعبے کو بہترین تعلیمی سازوسامان مہیا کیاجائے گا۔صنعتیں چلانے والے فیڈرز پر صفر لوڈشیڈنگ ہو گی۔ چھوٹے کاروبار خاص طور پر کاروباری خواتین کے لیے کم ازکم ٹیکس بریکٹ 4 لاکھ سے 6 لاکھ کی جارہی ہے۔
سیونگ سرٹیفکیٹ (بچت اسکیموں)، پینشن فوائد، شہداکے اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے کھاتوں میں سرمایہ کاری پر منافع پر لاگو ٹیکس کو10 فی صد سے کم کرکے 5 فی صد کیا جا رہا ہے۔چھوٹے ریٹیلرز کے لیے تین ہزار سے لے کر 10 ہزار تک کی متعین (فکسڈ) آمدن اور سیلز ٹیکس کے نظام لوگو کر رہے ہیں جس کے بعد ’ایف۔بی۔آر‘ اِن سے کسی مزید ٹیکس کا تقاضا نہیں کرے گا۔ پہلے سال کے لیے صنعت اور کاروباری قدر (ڈیپریسی ایشن کاسٹ) میں کمی کو 50 فیصد سے تبدیل کرکے 100 فی صد کیا جارہا ہے۔
ریئل اسٹیٹ سمیت غیر پیداواری اثاثے جمع کرنے سے غریبوں کے لیے گھروں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ امیروں کے غیرپیداواری اثاثوں پر ٹیکس لاگو کررہے ہیں تاکہ توازن آنے سے غریبوں کے لیے جائیداد کی قیمتوں میں کمی ہو۔اڑھائی کروڑ روپے مالیت کی دوسری جائیدادکی خریداری پر5 فی صد ٹیکس عائد کیاجارہا ہے جب کہ ایک سے زائد ذاتی جائیداد پر ایک فی صد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
1600 اور اس سے زائد سی سی کی لگڑری گاڑیوں پرٹیکس میں اضافہ کیاجارہا ہے۔زرعی مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنٰی دیاجارہا ہے۔ زرعی شعبے کی مشینری، اس سے منسلک اشیا، گرین ہاؤس فارمنگ، پراسیسنگ، پودوں کو بچانے کے آلات، ڈرپ اریگیشن، فراہمی آب سمیت ہر طرح کے زرعی آلات کو ٹیکس سے استثنٰی دیاجا رہا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ٹیکس صفر کرکے اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ہے تاکہ ہماری زراعت اور کسان ترقی کرے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بجٹ میں 10 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ویکسین، امراض پرقابو پانے اور صحت سے متعلق اداروں کی استعداد بڑھانے کے لیے 24 ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ادویات بنانے میں استعمال ہونے والے اجزائکو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنٰی دیاجارہا ہے جس میں ادویات بنانے میں استعمال ہونے والا مختلف اقسام کا بنیادی مواد شامل ہے۔
عدالتوں سے باہر تنازعات اور مقدمات کو طے کرنے کے لیے ’مقدمات کے تصفیہ کا متبادل نظام‘ شروع کیاجارہا ہے تاکہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے اخراجات اوروقت کو بچانے کے علاوہ حائل دقتوں کو دور کیاجائے۔بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے لیے 364 ارب روپے، 12 ارب روپے کی سبسڈی یوٹیلٹی اسٹورز جب کہ پانچ ارب روپے رمضان سبسڈی کے لیے رکھے گئے ہیں۔
توانائی کے متبادل ذرائع کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے بجٹ میں سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنٰی دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ 200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرنے والے صارفین کو بینکوں سے آسان شرائط پر سولر پینلز کی خریداری کے لیے قرضے دیے جائیں گے۔