مقبوضہ بلوچستان: نواب مری کے یاد میں سیمینار

0
84

نواب خیر بخش مری کی آٹھویں برسی مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ پریس کلب میں منائی گئی، پروگرام میں استاد میر محمد علی تالپور مہمان خصوصی کے طور پر شریک رہے۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز بلوچی قومی ترانے سے کیا گیا۔
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر دین محمد بزدار نے نواب خیر بخش مری کی حالات زندگی پر روشنی ڈالی۔پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اتنے بڑے شخصیت کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ ہمارے پاس انکو بیان کرنے کے لئے کوئی الفاظ نہیں،دنیامیں بہت سے انسان پیدا ہوتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن کچھ شخصیت نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ جب اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ایک افسانوی شخصیت بن کر ابھرتے ہیں اور پھر انکے شخصیت کی جو پرچھائیاں ہوتی ہیں وہ بڑھتی اور پھیلتی چلی جاتی ہیں
بابا مری نے نہ صرف بلوچ سیاست بلکہ پاکستانی سیاست کو بھی زیر زبر کردیا ہے اور اس میں اس طرح کی تبدیلیاں پیدا کی جس کو ٹھیک کرنے میں زمانے لگ جائیں بابا کے شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش ہے جو آپ کو کھینچتی چلی جاتی ہے.

ایسے شخصیت بہت کم ہوتے ہیں جن کے اثرات پورے تاریخ پر ہوتے ہیں بابا مری کسی بھی شخص پر آسانی سے اعتبار نہیں کرتے تھے کسی پر بھی بھروسہ کرنے کے لئے انہیں سالوں لگتے،بابا مری اس حد تک بولنے میں احتیاط کرتے تھے کہ کہیں میرے منہ سے کوئی ایسا بات نہ نکلے جو دشمن کے لئے فائدہ مند ہو آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنا نقصان ہوچکا ہے کیونکہ ہم نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا ہے لیکن بابا نے آخر دم تک احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا، بابا مری جب تک زندہ رہے انہوں نے دشمن کو اپنا ایک لفظ تک نہیں دیا کہ انکو فائدہ ہو اب بلوچ قوم میں کوئی ایسی شخصیت نہیں رہی جس پر بلوچ قوم بھروسہ کرے منظور بلوچ نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی شخص کو اپنی شخصیت کو نفی کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا بابا مری کو کسی کی تنقید کی، کسی کی شاعری کی، کسی کی تعریف کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ہے۔

وقت اور تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ اگر بلوچوں کا کوئی رہبر، لیڈر، استاد ہے تو وہ بابا مری ہے اور کوئی نہیں اور یہ میرا ایمان ہے کہ اگر آج پاکستان کا رویہ بلوچوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا یا یہ ریاست بلوچوں کو اپنا کالونی نہیں بناتا تو بابا مری میرے خیال میں ماتما بدھ جیسے صوفی ہوتے وہ تشدد کی کبھی بھی بات نہیں کرتا لیکن ریاست نے انہیں مجبور کردیا ہے کہ وہ تشدد کی بات کرے آج تک ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اور تحریک جہان تک بھی پہنچا ہے یہ سب بابا مری کے بتائے ہوئے سبق ہیں

استاد محمد علی تالپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بلوچ قوم پرست کے لئے اگر وہ خدا سے بلوچستان کے علاؤہ کچھ اور مانگے تو وہ کفر ہے اگر نواب صاحب اس راہ پر نہیں چلتے تو اسے کیا کچھ نہیں ملتا، ایک دفعہ بابا مری نے خود مجھے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ نواب مری کے پاس سب کچھ ہے اگر میرے پاس سب کچھ ہوتا تو میں اپنی داماد کے گھر میں رہتا، اس سے آپ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نواب مری کون تھے اور کیا تھے.
اگر ہم بابا مری کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں تو ہمیں ہماری جنت ملے گی ہماری جنت ہمارا یہی بلوچستان ہے ہمیں اور کوئی جبت نہیں چاہیے. قوم پرستی ایک بہت ہی مقدس چیز ہے جس طرح خدا کے ساتھ کسی کو جوڑنا ایک بہت بڑا گناہ ہے، شرک ہے اسی طرح قوم پرستی کے ساتھ بھی کچھ اور جوڑنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس گناہ کی کوئی معافی نہیں ہے، قوم پرستی ایک طریقت ہے اگر اس میں کوئی اپنا فائدہ تلاش کریگا تو وہ شرک کریگا، لوگوں کو اس راہ پر چلنا ہوگا جس راہ کی نشاندھی بابا مری نے کیا ہے بابا مری زندہ ہے کیونکہ وہ ایک فکر ہے بابا مری نا صرف بلوچوں کی بلکہ ہر مظلوم اور محکوم کا لیڈر ہے اور ایسے انقلابی لیڈر دنیا میں بہت ہی کم ملتے ہیں۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1948 میں بلوچستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا جسکو بعد میں الحاق کا نام دیا گیا لیکن دراصل یہ قبضہ گریت تھا ریاست کو بلوچستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں بلکہ بلوچستان کے معدنیات سے اپنا معشیت کا پہیہ چلا رہی ہے روز اول سے سوئی, اوچ اور ایسے کئی پروجیکٹس پنجاب کے کارخانوں کو ایندھن دے رہے ہیں اسکے علاوہ سیندک, ریکوڈک اور سی پیک جیسے میگا پروجیکٹس ہونے کے باوجود سوئی, سیندک, ڈیرہ بگٹی میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے جو کہ واضع کرتی ہے کہ بلوچستان کو ایک سوچ کے تحت پسماندہ رکھنا ہے. آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید پامالی ہورہی ہے لوگ لاپتہ کیئے جارہے ہیں اب تو ہماری عورتوں کو بھی گھروں سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا جارہا ہے. بلوچ اپنی دفاع آئینی اور جمہوری انداز میں کررہی ہے اور سیاسی شعور سے لیس تنقیدی محاذ میں ہے لیکن اسکے برعکس بلوچ قوم کو حقوق دینے کے بجائے لاپتہ کیا جاتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں