مقبوضہ بلوچستان کے ساحلی سی پیک کا حب کہلانے والے شہرگوادر میں بدھ کے روزحق دو تحریک کی جانب سے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور کراچی میں سندھ پولیس کی جانب سے لاپتہ بلوچ افراد کے خواتین بچوں سمیت طلباء پر تشدد وگرفتاریوں کے خلاف ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔احتجاجی مظاہرے میں لوگوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی اور پیپلز پارٹی کے خلاف نعرہ درج تھے۔ریلی میں شرکا کی بڑی تعداد شامل تھی،ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور بلوچ خواتین پر تشدد اور جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
شرکاء نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پولیس کی بلوچ خواتین پر تشدد قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بلوچستان میں بمباری اور شہید غلام محمد، لالہ منیر اور شیر محمد کی لاشیں پھینکی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ماؤں کے لخت جگر سالوں سے لاپتہ ہیں اور مائیں انکی راہ تھک رہی ہیں لیکن یہاں لواحقین پر بھی تشدد کی جاتی ہے۔انہوں نے ایک بار پھر مطالبہ کیا لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔انکا کہنا تھا کہ ہمارے وسائل، زمین اور پہاڑوں پر یہ قابض ہیں۔
مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں اورکراچی میں سندھ اسمبلی کے باہر لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے والی پرامن خواتین مظاہرین اور طلبہ پر سندھ پولیس کے تشدد اور گرفتاریوں کیخلاف بلوچستان یونیورسٹی سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔احتجاجی ریلی میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ریلی کے شرکاء نے تعلیمی اداروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔
اس موقع پر مقررین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی جانب سے بلوچ طلبہ کو لاپتہ کرنا، ماورائے عدالت قتل اور سندھ اسمبلی کے باہر پرامن بلوچ خواتین مظاہرین اور طلبہ پر سندھ پولیس کا تشدد اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے اور مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ فوری ختم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کو تدریسی عمل جاری رکھنے سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو جلد ممکن بنایا جائے۔